کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 56
2/171،342) اور یہ بھی وارث (ولی دم) کا حق ہے کہ وہ عدالت میں قاتل کوخود قتل کرے۔ (ایضا: 1/563، 2/150) عدالت کا تعلق یہاں صرف اس قدر ہے کہ اس نے جہاں اس حق کو وصول کرنے میں مظلوم کی مدد کرنا ہے، وہاں عدل وانصاف کے تقاضوں کی تکمیل اور نظم وضبط برقرار رکھنے کے لیے ظالم کے جرم کا تعین بھی اُسے ہی کرنا ہے۔ جرم کے تعین کا مرحلہ اگر بدلہ لینے کے بعد بھی حاصل ہو جائے اور مظلوم کو بدلہ لینے میں عدالت کی معاونت کی ضرورت بھی نہ رہے تو ایسی صورت میں عدالت کی حیثیت صرف نظم وضبط برقرار رکھنے کے ایک ادارہ کی بن جاتی ہے۔لیکن ایسی صورتحال تمام جرائم میں نہیں ہوتی بلکہ بعض صورتوں میں ظالم عام معاشرے کے خلاف یا اللہ کی کی حدوں کو توڑنے کا مجرم ہوتا ہے،ایسی صورتحال میں عدالتوں کا کردار اور ضرورت قصاص کے واقعہ سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں تک اس انتظامی / عدالتی حق کا تعلق ہے تو اس شخص نے ایک انتظامی جرم یہ کیاہے کہ قانون کوہاتھ میں لے کر اپنا فیصلہ خود کیوں کیا؟ عدالت اُسے اس انتظامی جرم کی کوئی بھی تعزیری سزا دے سکتی ہے یا چاہے تو معاف بھی کرسکتی ہے جیسا کہ سابقہ فیصلوں میں حکامِ وقت نے اس انتظامی جرم کے بدلے اس کو کوئی تعزیری سزا نہیں دی۔ ایسے ہی باقی تمام فیصلوں میں جہاں سزا کا عندیہ بھی ظاہر کیا گیا، وہ صرف ثبوت مہیا کرنے تک ہے، ورنہ نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان عدالتوں نے اپنا تعزیری حق چھوڑ دیا۔ چنانچہ قواعد ِفقہیہ کی مشہور کتاب الأشباہ والنظائر میں ’کن گناہوں پر تعزیر کی سزا نہ دی جائے؟ ‘سے بعض مسائل کو مستثنیٰ کیا گیا ہے الرابعة: إذا رأىٰ من يزني بزوجته وهو محصن فقتله في تلك الحالة فلا تعزير عليه لأجل الحمية والغيظ (ص: 490) ” چوتھی (مستثنیٰ) صورت یہ ہے کہ کوئی انسان اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو زناکرتا پالے اور وہ زانی شادی شدہ ہو تو اس کو قتل کردے تو ایسی حالت میں اسے حمیت وغیرت او رغصہ کی وجہ سے (معذور سمجھ کر)کوئی تعزیر نہ دی جائے۔ “ غیرت کے نام پر قتل کی مثال بھی ایسے ہی ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کے حرم(عزت) پر ہاتھ ڈالا، یا اس کی بیوی نے اپنے علاوہ اپنے شوہر کی عزت بھی پامال کی۔٭ شوہر کا فرض یہ تھا کہ وہ اس معاملہ کوعدالت میں لے جاتا، لیکن اس نے یہ معاملہ خود نمٹا دیا جو اس کا انتظامی جرم ہے۔ ایسی صورت میں شوہر کو کیا قصاصاً قتل کیا جائے یا اس کو اپنے ساتھ مذکورہ زیادتی ثابت کرنے پر ہی چھوڑ دیا جائے اور ضروری ہو تو انتظامی سزا (تعزیر) عائد کی جائے۔ ٭ جولوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ معاہدۂ نکاح میں فریقین کا حق برابر ہے اور مرد کی طرح عورت بھی اپنے ہتک ِعزت کی بنا پر وہی اقدا م کرنے کی مجازہے، وہ لوگ جہاں معاہدۂ نکاح میں مرد کی برتر انتظامی پوزیشن کو نظر انداز کرتے ہیں جو طلاق یا اطاعت ِزوج کی صورت میں بوجوہ اسے ہی حاصل ہے، وہاں صدیوں سے چلی آنے والی معاشرتی روایات اور ہر دو صنفوں کے مخصوص ذ ہنی وفکری خصائص وامتیازات کو بھی پس پشت ڈالتے ہیں جن کی رو سے نہ صرف خاندان کی عزت کا تصور مرد سے ہی وابستہ ہے ۔ اپنے گھرانے کی عزت کے لیے کس عورت کا غیرت سے بھر پور اقدام کرنا بہت شاذ ونادر ہے۔ اسلام نے بھی گھرانے کی ذمہ داری مرد کو ہی دی ہے اور گھرانے کے معاشرتی عزت ووقار کے تصورات بھی آج تک مردوں سے وابستہ رہے ہیں ۔ عورت کو غیرت کا برابر حق دینے والے کیا اس امر کا جواب دے سکتے ہیں کہ کنوارگی کا چیک اللہ نے صرف عورت کیلئے کیوں رکھا ہے؟ یا صرف مرد کو ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت کیوں دی ہے؟ فطرت اور صدیوں سے چلی آنیوالی مسلمہ روایات سے ٹکڑانا خالصتاً منفی رویہ ہے جس سے ہر ذی فہم کو گریز ہی کرنا چاہیے۔