کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 54
(2) اس کے دلائل گواہان کی بجائے ثانوی شہادت /قرائن سے حاصل ہوجائیں جیسا کہ قبیلہ ہذیل کے مہمان نے لونڈی سے بری نیت کی اور اس نے پتھر مار کر اس کا جگرپہاڑ دیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تفتیش کرنے کے بعد لونڈی کی بات کو درست مانا او رچھوڑ دیا۔(صفحہ نمبر42) ایسے ہی انصاری بزرگ کی بیٹی نے اَمرد(داڑھی آنے سے قبل بالغ) لڑکے کو قتل کرکے پہلے اسے پھر اس کے نومولود بچے کو راستے میں پھینک دیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بذاتِ خود جاکر تحقیق کی اورعورت کو مجبور قرار دیا۔ (3) اس کا خود اعتراف مقتول کے مرنے سے قبل یا مقتولہ کے اولیا سے حاصل ہوجائے۔ فقہ ِمقارن کی کتاب’المغنی‘ میں ہے : وإن اعتر ف الولى بذلك فلا قصاص عليه ولا دية لما روى عن عمر ”اگر مقتولہ کا ولی خود جرم زنا کا اعتراف کرلے توقاتل پر نہ قصاص ہوگا اور نہ ہی دیت، جس کی دلیل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہی ہے۔“(11/461 و642) او راگر ولی انکار کردے تو تب مجرم کو گواہ ہی لانا ہوں گے۔ المغنی (8/322) میں ہے : وإذا قتل رجلا وادعٰى أنه وجده مع امرأته فانكر وليها فالقول قول الولي (4)بعض فقہا کے مطابق اس کے لئے دو گواہ کافی ہیں ، اور یہ حنابلہ کا موقف ہے۔ چنانچہ الموسوعة الفقہية میں ہے : عند الحنابلة أنه يكفى شاهدان وإن البينة تشهد على وجود الرجل على المرأة وليس على الزنا (الموسوعة الفقهية: 28/110) ”حنابلہ کے نزدیک دو گواہ کافی ہیں ، کیونکہ گواہی تواس امر کی مطلوب ہے کہ یہ وقوعہ ہوا تھا نہ کہ زنا کی گواہی… “ فقہ حنبلی کی ایک او رکتاب کشاف القناع میں اس سے زیادہ صراحت ہے کہ والبينة شاهدان لأن البينة تشهد على وجوده مع المرأة وهذا يثبت بشاهدين وإنما الذي يحتاج إلى أربعة الزنا وهذا لايحتاج إلى إثبات الزنا ”دو گواہ سے ثبوت حاصل ہوتاہے، کیونکہ ثبوت اسی امر کامطلوب ہے کہ مقتول عورت کے ساتھ موجودتھا اور یہ ثبوت دو سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ جن لوگوں نے 4 کی گواہی ضروری قرار دی ہے وہ زنا کی گواہی میں اُلجھ گئے ہیں ۔“ (6/156) (5)اکثر فقہا کا خیال ہے کہ چار کی گواہی سے ہی واقعہ کا ثبوت حاصل ہوگا، کیونکہ نبی کریم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے چار گواہ لانے کا پوچھا تو آپ نے ’ہاں ‘ فرمایا ۔ دیکھئے صفحہ 30 علاوہ ازیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی چار گواھ طلب کئے تھے ، وگرنہ انہوں نے کہا تھا کہ میں