کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 53
مصنف ابن ابی شیبہ (5/450)میں مرد عورت دونوں کے قتل کا تذکرہ ہے۔
اسلام قانونی ثبوت کے بغیرقتل کے مجرم کو سزا سے کوئی رعایت نہیں دیتا چنانچہ ابن عبدالبر نے ”ایسے شخص کوقتل کی سزا دینے پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے جو بدکاروں کو قتل توکردے، لیکن اسکے گواہ یا ثبوت لے کرنہ آئے۔ یہ مسالک ِاربعہ کا متفقہ موقف ہے۔“ (التمہيد:21/260)
سزا کے بارے میں فقہا کا موقف
٭ نیل الاوطار میں امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں فقہا کے مختلف موقف جمع کردیے ہیں جس کی رو سے جمہور علما کے نزدیک اگر بدکاری ثابت ہوجائے تو قتل غیرت کے ملزم کو قصاص میں قتل نہ کیا جائے۔ البتہ وقوعہ کے ثبوت کے بارے میں ان میں اختلاف ہے : امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور اسحق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دو گواہ لانے کافی ہیں جبکہ جمہور فقہا کے مطابق چار گواہ۔ بعض فقہا نے اس میں مقتول کے شادی شدہ ہونے کی شرط بھی لگائی ہے۔ (6/226)
٭ علامہ ابن قیم جوزی رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے میں ائمہ فقہا کاموقف بیان کرتے ہیں :
”امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ابوثور رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق اگر مقتول شادی شدہ ہو اور وقوعہ ثابت ہوجائے تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا،کیونکہ یہ حد کے قائم مقام ہوجائے گا…امام احمد بن حنبل اور اسحق بن راہویہ کے مطابق اگر قاتل وقوعہ کے دو گواہ لے آئے تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا … امام مالک سے اس سلسلہ میں دو قول ہیں : ان کے شاگرد ابن حبیب کے مطابق اگر مقتول شادی شدہ ہو اور وقوعہ ثابت ہوجائے تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا،ان کے دوسرے شاگرد ابن قاسم کے مطابق مقتول کا خون رائیگاں جانے کے لئے صرف وقوعہ کا ثبوت ہی کافی ہے۔ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ کنوارے کے قتل کی صورت میں دیت دینا بہتر ہے۔ “ (زاد المعاد:5/407)
واقعہ کا مستند ثبوت کیسے ؟
(1)مقتولین کا دورانِ فعل قتل ہوجانا خود اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ اس گناہ کے مرتکب تھے جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(كفى بالسيف ’شا‘) يريد أن يقول شاهدا… الخ (کنز العمال: 13613)
”تلوار بطورِ’گواہ‘ کافی ہے آپ گواہ کہنا چاہتے تھے۔ (یعنی دونوں برا کام کرتے ہوئے مارے گئے تو ان کا موقعہ پر مارا جانا ہی ان کے جرم کی شہادت ہے)“
ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آنے والا واقعہ جب قاتل نے دورانِ بدکاری دورانوں کے درمیان تلوار مارکر قتل کردیا تھا۔(دیکھئے صفحہ نمبر44)