کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 52
صحابہ کرام کے فیصلے درج ذیل ہیں :
(1)حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ملک شام میں ابن خیبری نامی ایک شخص نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک آدمی کو دیکھا تو اس نے موقع پانے پر اُنہیں قتل کردیا۔ جب یہ قصہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش ہوا تو انہیں اس کے فیصلے میں دقت پیش آئی۔ چنانچہ انہوں نے ابوموسیٰ کو لکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ فیصلہ کروا دیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”یہ واقعہ ہماری سرزمین میں پیش نہیں آیا، مجھے اس کی پوری تفصیلات بتاوٴ۔ تفصیلات کا علم ہونے پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر یہ قاتل چا رگواہ نہ لائے تو اُسے پوری سزاملے گی۔“ (موطأ:2/737،738 و سنن کبریٰ بیہقی:8/231، 337 و مصنف عبدالرزاق:9/433)
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور امام شافعی نے بھی اس کو دلیل بنایا ہے۔ (الامّ:7/182)
(2) ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے عطا سے پوچھا کہ آپ کا اس آدمی کے بارے میں کیاخیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی شخص کو ملوث پائے، پھر قتل کردے، کیا مقتول کا قتل رائیگاں جائے گا؟ تو عطا نے کہا : اس صورت میں ہی جب ثبوت مل جائیں ، وگرنہ نہیں ۔“
اگلی حدیث میں ایسی ہی بات مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی منقول ہے۔(مصنف عبدالرزاق:9/433)
(3)حکم سے مروی ہے کہ عبد ِقیس کا ایک آدمی ایک عورت کے پاس آیاکرتا تھا۔ عورت کے خاوند نے اس آدمی کوبارہا روکا اور لوگوں کو اس روک ٹوک پرگواہ بھی بنایا (لیکن وہ باز نہ آیا) ایک روز وہ شخص آیا ہوا تھا کہ شوہر نے اسے دیکھ لیا اور قتل کردیا۔ یہ معاملہ حضرت مصعب بن زبیر کے پاس لے جایا گیا تو انہوں نے کہا:اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے دیت نہ دلوائی ہوتی تو میں بھی دیت نہ دلواتا۔ چنانچہ اُنہوں نے شوہر سے اُس آدمی کی دیت٭ دلوائی۔
(4) ہانی بن حزام کی روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک آدمی کو پایا تو اس نے دونوں کو قتل کردیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس آدمی کو قید میں ڈالنے اور مقتولین کی دیت ادا کرنے کا حکم دیا۔ (مصنف عبدالرزاق:9/435،436) مسند احمد کی روایت میں صرف آدمی کو قتل کرنے کا ذکر ہے۔(العلل ومعرفة الرجال روایت عبداللہ بن احمد: 1372) جبکہ
٭ مقتول بدکاری کی نیت سے آیا ہو اور اس نے ابھی بدکاری کا فعل نہ کیا ہو تو ایسی صورت میں بھی احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس کی دیت ادا کی جائے جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ آگے آرہا ہے۔(صفحہ نمبر ۶۲)
یا یہ پتہ چلے کہ قاتل نے یہ کام بدکاری کے شبہ میں کیا ہے، حالانکہ بدکاری عملاً نہیں ہوئی تو ایسی صورت میں قاتل کو اس شبہ کا فائدہ دے کر اس قتل کو قتل عمد کی بجائے قتل خطا تصور کیاجایا جائے اور دیت لی جائے جیساکہ اس واقعہ میں ہوا ہے۔