کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 50
جارہا تھا کہ اس نے یہودی کو یہ اشعار پڑھتے ہوئے سنا : ”وہ پراگندہ حال شخص جسے اسلام نے میرے بارے میں دھوکہ میں رکھا (اور وہ اپنی بیوی کو میرے پاس چھوڑ گیا) میں ایک ایسی رات میں جب چاند پوری طرح روشن تھا، اس کی بیوی کے ساتھ خلوت میں رہا۔ میں اس کی بیوی کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہاہوں اور وہ (بیوقوف مجاہد) گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر صبح شام کررہا ہے۔ اس کے کو لہوں کے مقام اتصال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ گویا دولشکر ایک دوسرے پر حملہ آور ہورہے ہوں ۔“ وہ مسلمان تلوار لے کر گیا اور اس یہودی کو قتل کردیا۔ یہود اس کے خون کا مطالبہ لے کر آئے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اصل واقعہ سے آگاہ کیا گیا تو آپ نے اس کا خون رائیگاں قرار دے دیا۔“ (أقضية الخلفاء الراشدين:1/583 و فقہ عمر:211) اسی سے ملتے جلتے مزید تین واقعات أقضية الخلفاء الراشدين میں بیان کئے گئے ہیں ۔ ان تمام واقعات کی تخریج بھی وہیں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ (دیکھئے: ص584، 585) (2)حسن بصری سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک شخص کو ملوث پایا تو اس کو قتل کردیا۔ مقتول کے ورثا یہ معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان کے پاس لے گئے تو اُنہوں نے اس خون کو باطل اور رائیگاں قرار دیا۔ (المحلّٰى :8/252) ان واقعات میں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم نے قتل غیرت کے مجرم کو سزا نہیں دی بلکہ مقتول کاجرم ثابت ہونے پر اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ اسلام ایسے قتل کے بارے میں جوغیرت کی بنیاد پر ہوا ہے، مجرم کو رعایت دیتاہے۔ اسلام ایسے مجرم سے جس امر کا مطالبہ کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس بدکاری کا ثبوت لائے اور اگر ثبوت نہ ملے تب وہ سزاوارہے۔ فقہانے اس مسئلہ پر ثبوت کے حوالہ سے ہی بحث کی ہے اور اس امر میں سب کا اتفاق ہے کہ اگر وہ ثبوت بہم پہنچا دے تواس کو قتل کا مجرم نہیں سمجھا جائے گا۔یہ بھی عجب بات ہے کہ ثبوت عام طورپر سزا کے عائد کرنے کے لئے ہوتا ہے، لیکن یہاں ثبوت مکمل ہونے سے مجرم سے سزا موقوف کرنا مقصود ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مجرم کی طرف سے اس ثبوت کا مہیا کرنا گویا مقتولین کو جرم میں ملوث ثابت کرنا ہے اور ان کا جرم میں ملوث ہونا اس کے لئے گنجائش پیدا کردیتا ہے۔کیونکہ یہ قتل دراصل ایک اور جرم کا ردّ عمل ہے۔ البتہ جہاں ثبوت موجود نہ ہوں وہاں مرد کا فرض ہے کہ وہ شک وشبہ کی بنیاد پر غیرت کھانے کی بجائے مختلف انتظامی اختیارات سے اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے۔ چنانچہ اسی سلسلے کا ایک واقعہ ابتدا میں گزر چکا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو شک وشبہ کی بنا پر