کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 49
قتل قرار دینا مشکل ہے۔ ہماری نظر میں یہ قتل دراصل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت کانتیجہ ہے۔ یوں بھی توہین رسالت کی صورت میں قانون کوہاتھ میں لینا کونسا اتفاقی مسئلہ ہے۔ اگر یہ غیرت کا نتیجہ نہ ہوتا بلکہ توہین رسالت کی سزا ہوتی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ان سے یہی سلوک کرتے جیسا کہ اس روایت کے بعض طرق میں ان لوگوں کا پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آنے کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ ٭ اسی نوعیت کا ایک واقعہ غزوۂ بنی قینقاع کے پس منظر میں بھی بیان کیا جاتا ہے۔ اس غزوہ کے اسباب میں سے ایک سبب وہ واقعہ بھی تھا جو کتب ِسیرت میں یوں بیان ہوا ہے : ”بنو قینقاع کے بازار میں ایک یہودی نے اپنی دکان میں کسی مسلمان عورت کا کپڑا اس غرض سے باندھ دیا کہ جب وہ اُٹھے تو اس کا ستر کھل جائے، چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ اس عورت نے بدلہ کے لئے مسلمانوں کو پکارا۔ ایک مسلم نوجوان نے غیرت میں آکر اس یہودی کو قتل کردیا جس کے نتیجے میں یہود اس پر پل پڑے اور انہوں نے بھی اس مسلم نوجوان کو قتل کردیا۔ اس واقعہ سے یہود اور مسلم کے مابین جنگ چھڑ گئی۔“ (السيرة النبوية في ضوء مصادرہا الأصلية : ص370) اس واقعہ کا تعلق بھی غیرت کے ساتھ ہے۔ اگر غیرت کے نام پر قتل کرنے والا مسلمان بھی ویسی ہی سزا کا مستحق تھا جو ایک عام قاتل پر عائد ہوتی ہے تو اس قاتل مسلمان کے بدلے مسلمانوں کو یہود سے لڑائی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ دونوں واقعات دورِ نبوی میں پیش آئے اور قاتل نے غیرت پرزد پڑنے کی وجہ سے قانون کو ہاتھ میں لیا، لیکن واقعہ ثابت ہونے پر آپ نے قاتل کو سزا نہیں دی یادرہے کہ یہ بھی عمداً قتل ہی تھا۔پہلے واقعہ میں آپ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فعل لاقانونیت کی وجہ سے ناگوار گزرا، لیکن اس بظاہر مسلمان کے ارتداد کی بنا پر حضرت عمر کورعایت ملی کیونکہ مرتد بذات خود اسلامی قانون کی نظر میں قابل گردن زدنی ہے۔ اوردوسرے واقعہ میں آپ نے اس مسلم نوجوان کے خون کے دفاع میں یہودکے ساتھ جنگ کی اور اس قضیہ فیصلہ جنگ نے ہی کیا۔ دورِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فیصلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں اس سے زیادہ واضح واقعات ملتے ہیں جس میں غیرت کے نام پر قتل کرنے والے قاتل کو سزاے موت یا قصاصاً قتل نہیں کیا گیا : (1)عبداللہ بن عبید اللہ سے مروی ہے کہ ایک شخص جہاد کے لئے روانہ ہونے لگا تو ایک یہودی کو اپنی بیوی کی دیکھ بھال کے لئے کہہ گیا۔ ایک روز ایک مسلمان صبح کی نماز کے لئے