کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 48
اس کی اجازت نہیں کہ بدکاری کے مجرمین کو خود قتل کردے لیکن اگر کوئی شخص اس جرم کا ارتکاب کرلے تو ایسی صورت میں اس کو سزا کیا دی جائے۔یہ مرحلہ جرم وسزا سے متعلق ہے اور اس میں اسی کے تصورات کے حوالے سے بحث ہوگی۔دورِ نبوی اور دورِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایسے کئی واقعات پیش آئے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ انہیں کیا سزا دی گئی۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات ٭ پہلا واقعہ تو بدکاری کے بجائے صرف غیرت کھانے پر قتل کرنے کا ہے اور لازمی نہیں کہ انسان صرف بدکاری پر ہی غیرت کھائے بلکہ اس کا اظہار مختلف پس منظروں میں ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ مشہور تاریخی واقعہ ہے جس میں دو آدمیوں کے جھگڑے کا ذکر ہے۔دربارِ نبوت سے جس (بظاہر) مسلمان کے خلاف فیصلہ ہوا، اس نے اُس فیصلہ کو دل سے قبول نہ کیا اور اپنا فیصلہ پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پیش کردیا۔ جب دونوں فریق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کی تصدیق کرلی تو آپ رضی اللہ عنہ اندر گئے اور باہر آکر دوبارہ فیصلہ کا تقاضا کرنے والے شخص کو اپنی تلوار سے قتل کردیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ اطلاع پہنچائی گئی تو آپ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فعل ناگوار محسوس ہوا، لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بریت پر یہ آیات نازل کردیں کہ ”تیرے ربّ کی قسم! یہ لوگ کبھی مسلمان نہیں ہوسکتے حتیٰ کہ وہ اپنے جھگڑوں میں آپ کو فیصل نہ مان لیں ۔ بعد میں اس فیصلہ پر ان کے دل میں کوئی تنگی بھی پیدا نہ ہو اور اس کو دل وجان سے تسلیم کریں ۔“ (النساء:65) چنانچہ اس آدمی کا یہ خون رائیگاں گیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس قتل سے بری ہوگئے۔ (تفسیر ابن کثیر:ج1/ص789) ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں ( 3/994) اور دیگر اہل علم نے اس حدیث کو ابن لہیعہ کے طریق سے روایت کیا ہے ،لیکن یہ طریق ضعیف ہے۔ البتہ ابومغیرہ اور شعیب بن شعیب کے طرق سے بھی یہ روایت مروی ہے۔ لہٰذا حافظ ابن کثیر نے ان شواہد کی بنا پر اس روایت کو قوی شمار کیا ہے۔ (مسند الفاروق:2/876 بحوالہ اقضية الخلفاء الراشدين:2/1188) ٭ بعض لوگ اس واقعہ کو توہین رسالت کی سزا کے ضمن میں لاتے ہیں لیکن درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو قبول نہ کرنا توہین رسالت سے کمتر درجہ کی بات ہے، باوجود اس کے کہ اس میں توہین کا یک گو نہ پہلو بھی پایا جاتا ہے، لیکن اس نوعیت کی توہین کو مستوجب ِسزائے