کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 47
بارے میں ہی مانگی تھی، حدیث میں أفاقتلہ میں ’ہ‘ ضمیر سے یہی پتہ چلتا ہے جبکہ مرد تو ہر صورت میں جارح ہی ہوتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث مرد کوقتل نہ کرنے میں تو صریح ہے اور عورت کی رضا مندی یا عدم رضامندی کا ا س میں سوال ہی درپیش نہیں ۔اس سے ایسا موقف اپنانے والوں کی غلطی کا پتہ چلتا ہے کہ اس میں رضامندی کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، نکاح کے بغیر جنسی تعلقات زنا ہی ہیں ۔ دراصل ایسا سوال حقوقِ نسواں کے موجودہ نعروں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جس کی رو سے عورت کے حق عزت کی حفاظت تو مرد پر ہونی چاہئے لیکن مرد کے حق عزت … جس کو رضامند بیوی داغ دار کر رہی ہے … کی حفاظت کا نہ تومرد کو حق حاصل ہے اور نہ ہی اس کے مسلمان بھائیوں کو۔ اس تصور کی اہم وجہ یہ ہے کہ جدید تہذیبوں میں رضامندی کی صورت میں بدکاری کو جرم ہی نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے خیالات سے متاثر لوگ مرد وعورت کی رضامندی کی صورت میں اسے عصمت دری کے بجائے صرف ’آزادانہ جنسی تعلقات‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ٭ قانون دان حلقوں میں مذکورہ بالا تصورِ دفاع اجنبی ہونے کی دووجوہات ہیں : پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جدید قانون میں اپنے دفاع کا یا دوسرے شخص کے دفاع میں مدد کرنے کا تصور تو موجود ہے لیکن نہی عن المنکرکو جدید قانون میں صرف حکومتی مقاصد میں دخل اندازی کے وقت جائز قرار دیا گیا ہے یعنی بغاوت او رتخریب کاری جیسے جرائم میں ۔ جب کہ اسلام میں برائی ہر صورت برائی ہی ہے، عام مسلمانوں کا فرض ہے کہ راضی بزنا مردوزن کو اس سے روکیں ۔نہی عن منکر کا تصور جدید قانون میں تو نہیں لیکن اسلام میں صریح موجود ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ زنا کو اس قدر سنگین جرم نہیں سمجھا جاتا جس کی بنا پر قتل تک کی سزا دینا گوارا ہو جائے۔جبکہ اسلام میں مسلمان کی عزت کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور بدکاری کو غیرمعمولی طورپر شنیع فعل قرار دیا گیا ہے حتیٰ کہ شادی شدہ مردو عورت کا بدکاری میں ملوث ہونا ان کے خون سے عصمت ِدم ( پاکیزگی) کوزائل کردیتا ہے جوہرمسلمان کو اسلام کی حالت میں حاصل رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جسٹس عبد القادر عودہ نے ان صورتوں میں جب مسلمان کا خون رائیگاں جاتا ہے ’شادی شدہ شخص کی بدکاری‘ کو بھی شامل کیا ہے. (دیکھئے :ج1/ص638) چوتھا مرحلہ قتلِ غیرت کی سزا اسلام میں قانون کوہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں اور وقوعہ ہوجانے کے بعد اب یہ حاکم کا کام ہے کہ وہ ان کو سزا دے۔ جو شخص قانون کو خود ہاتھ میں لیتا ہے ، وہ مجرم ہے۔اور اسے