کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 46
”جدید قانون میں بھی دورانِ فعل روکنے کا یہ تصور موجود ہے لیکن مصری اور فرانسیسی قوانین نے بیسیوں صدی میں آکر اس تصور اورانہی شرائط کواختیار کیا جو اسلامی فقہانے کئی صدیاں قبل بیان کر دی تھیں ۔ (1/569 ،582)
جبکہ نہی منکر کا تصورجدید قانون میں صرف بعض حالات مثلاً بغاوت یا تخریب کاری وغیرہ کی صورت تک محدود رکھا گیاہے لیکن اسلام میں یہ اُصول تمام جرائم کیلئے موجود ہے۔“ (1/609)
دفاع کے اس اسلامی وقانونی تصور …جس پر خلفاے راشدین نے فیصلے دیے ہیں اور فقہا کرام نے شرعی موقف کے طورپر اسے اختیار کیا ہے … کو اگر نبی کریم کے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے مکالمے کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو بظاہر ان میں تضاد نظر آتا ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کودورانِ فعل ہی اس بدکاری کے لئے قتل کرنے سے منع کیا تھا۔ اس ظاہری تضادکے خاتمے کی کئی صورتیں ہیں :
(1)اس کی ایک توجیہ تو بعض فقہا نے یہ قرار دی ہے کہ جب قاتل کے لئے اس بدکاری کو ثابت کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں اسے اس فعل سے باز رہنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریم سے سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ پھر میں کیا گواہ تلاش کروں ؟ تو آپ نے ہاں میں جوا ب دیا۔ گویا یہ قتل ایسی صورت میں ہی جائز ہے جب اس کا ثبوت قانونی طور پر پیش کیا جاناممکن ہو ورنہ صرف قاتل کے کہنے پر اس کو بدکاری نہیں مانا جائے گا۔ اس سلسلے میں تمام فقہا ثبوت کو اسی لئے ضروری قرار دیتے ہیں جس کے لئے آگے ثبوت کی بحث ملاحظہ فرمائیں ۔
(2)ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ نبی کریم نے اُنہیں سیدھا قتل کرنے سے تو منع کیالیکن اُنہیں اس برائی سے دفاع کا حق تو دیگر صریح احادیث کی بنا پر موجود ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی ہے
﴿ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ﴾
”جو تم پر زیادتی کا مرتکب ہو تو بھی اس کا بدلہ دو جیسی اس نے تم زیادتی کی ہے۔“
اس توجیہ سے یہ پتہ چلا کہ دفاع یا نہی عن المنکر کی صورت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قتل تک جا پہنچنا تدریجا ً یا اُس انداز پر ہوتا ہے جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔ ایسے جارح مرد وعورت کو پہلے ہلے میں ہی قتل کردینا درست نہیں ۔ بلکہ اس میں تدریج کے ساتھ ساتھ ضرورت کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔گویا اس میں قتل کی بجائے برائی کوروکنا اصل مقصود ہے۔
٭ بعض لوگ عورت پر جبر کی صورت میں تو جارح مرد کو قتل تک کرنے کی اجازت دیتے ہیں ، البتہ عورت کی بدکاری میں رضامندی کی صورت میں مرد یا عام مسلمانوں کو مردوزَن کو روکنے کا حق نہیں دینا چاہتے۔ جبکہ نبی کریم سے حضرت سعد نے قتل کی اجازت مرد کے