کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 45
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جس میں ایک شخص نے دوسرے کا ہاتھ اپنے دانتوں میں دبا لیا ، ہاتھ کو چھڑانے کی غرض سے اس نے زور سے کھینچا توزیادتی کرنے والے کے دانت ٹوٹ گئے۔ نبی کریم نے دانت ٹوٹنے کو رائیگاں قراردیااور دوسرے پر دانت توڑنے کا قصاص یا کوئی تعزیری سزا عائد نہ کی۔ آپ نے ہاتھ چبانے والے سے فرمایا :(فيدع يده في فيك تقضمها كما يقضم الفحل؟) (مسند احمد:17489)
”کیا وہ تیرے منہ میں اپنا ہاتھ باقی رہنے دیتا تاکہ تو اسے سانڈ کی طرح چباتا رہتا۔“
٭ حضرت عبداللھ بن عمر رضی اللہ عنہما کے گھر میں ایک مرتبہ چور گھس آیا تو آپ رضی اللہ عنہ تلوار لے کر اس کی طرف لپکے۔ عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم آپ رضی اللہ عنہ کو پکڑ نہ لیتے تو لازمی تھا کہ آپ تلوار سے (چور کی گردن) مار دیتے۔
٭ چوری کا مال چور سیبچاتے ہوئے اگر چور مارا جائے تو اس کا خون رائیگا ں ہوگا :
رأى رجلا يسرق ماله فصاح به أو ينقب حائطه أو حائط غيره وهو معروف بالسرقة فصاح ولم يهرب حلَّ قتله (کنز الدقائق: 5/45)
”کسی چور نے مال چوری کرنے کی غرض سے اس کی یا دوسرے کی دیوار میں نقب زنی کی اور یہ چوری واضح تھی ، اس آدمی نے چیخ کر اس کو بھگانا چاہا اور وہ نہ بھاگا تو اس کیلئے چور کوقتل کرنا جائز ہے۔“ مزید دیکھئے: الموسوعةالفقهية،مادّھ صیال اور الام للشافعی،کتاب الحدود
اس سے یہ پتہ چلتا ہے جب کسی کنوارے مرد یا عورت کو زناکاری سے روکا جائے یا کوئی کنوارا شخص کسی آدمی کی بہن سے جبراً بدکاری کا ارتکاب کررہا ہو تو ایسی صورت میں اس برائی سے روکتے روکتے اگر نوبت قتل تک جا پہنچے تو ایسی صورت میں کنوارے مرد کا قتل رائیگاں ہوگا کیونکہ یہاں مقصد سزا دینا تو ہے ہی نہیں ، بلکہ مجرم کا جرم پر اصرار اور دفاع کرنے والے کا جرم کوانجام پانے سے روکنا مقصود ہے۔
اسلامی شریعت اور جدید قانون؛ چند شبہات
جرم کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ اس کی روک تھام صرف حکومت کی ذمہ داری ہے، درست نہیں ۔ اسلام میں جرم کی روک تھام کے لئے ایک مرحلہ دورانِ جرم کا بھی ہے۔ دورانِ جرم مجرم کو روکنا متاثرہ مسلمان کے لئے خصوصاً اور عام مسلمانوں کے لئے عموماً فرض ہے۔البتہ جرم کے بعد اس کی ذمہ داری صرف حکمران کا فرض ہے۔حملہ آور کے دفاع میں اپنی جان، مال اور عزت کا تحفظ کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے جبکہ نہی عن المنکر میں دوسرے مسلمان بھائی کے ان حقوق کا تحفظ اور دیگر جرائم کی روک تھام بھی شامل ہے۔ بقول جسٹس عودہ شہید رحمۃ اللہ علیہ