کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 43
مقتول لڑکا میری عزت پر حملہ آور ہوا تو میں نے موقع پر ہی اس کو قتل کردیا، اسی کا یہ بچہ ہے جو میں نے مقتول کی جگہ پر پھینکا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس عورت کی تعریف کی اور اس کے باپ کے سامنے بیٹی کی نیکی اور صداقت کی گواہی دی اور واپس چلے آئے۔ (مختصراً) (مسندالفاروق:2/456، الطرق الحکمیہ: ص40 و تاریخ عمر: ص 97) ڈاکٹر وہبہ زحیلی اس بارے میں لکھتے ہیں : ”اس امر پر سب فقہا کا اتفاق ہے کہ عورت کو اپنا دفاع ضرور کرنا چاہئے ،کیونکہ ایک غیرمرد کے ہاتھ چڑھنا اس کے لئے حرام ہے۔ ولها قتل الرجل المكره ولو قتله كان دمه هدراً پھرعورت زبردستی کرنیوالے کو قتل بھی کرسکتی ہے ، اور یہ قتل رائیگاں جائے گا۔“ (الفقہ الاسلامی وادلتہ: 5/759 بحوالہ الدر المختار: 3/197، بدایہ المجتہد: 2/319 وغیرہ) (2) شوہر کا اپنی بیوی کا دفاع کرنا: شوہر اگر اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو شریک ِبدکاری دیکہے اوراسے قرائن سے زیادتی کا اندازہ ہوجائے تو شوہر پر اس کا دفا ع کرنا واجب ہے۔ ٭ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ایک لشکر کے ساتھ جارہے تھے کہ کسی وجہ سے لشکر کے پیچھے رہ گئے، راستے میں انہیں دو آدمی ملے اور ان سے کھانے کومانگا۔ حضرت زبیررضی اللہ عنہ نے جو کچھ تھا، اُنہیں دے دیا، اس کے بعد وہ کہنے لگے: لونڈی ہمارے حوالے کردو۔ یہ سن کر حضرت زبیر نے اُنہیں تلوار ماری اور دو ٹکڑے کردیا۔ (المغنی:11/462) ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں : ولو بالقتل إن امكنه الدفاع ولم يخف على نفسه شوہر کا فرض ہے کہ اپنی بیوی کے دفاع کی ہرممکن کوشش کرے جس کیلئے اس کو قتل بھی کرنا پڑے تو دریغ نہ کرے۔“ (الفقہ الاسلامی وادلتہ: 5/759 بحوالہ الدر المختار: 3/197، بدایہ المجتہد: 2/319 وغیرہ) اگر بیوی بھی اس جرم میں شریک ہو تب بھی شوہر کے لیے عزت کا دفاع کرنا مشروع ہے۔ اگر شوہر اپنے حرم اورنطفہ میں اختلاط وشبہ کو بچانے کے لیے وقوعہ کے دوران اس فعل سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اوراس کے لیے قتل کی نوبت آتی ہے تو شوہر کا یہ فعل شریعت کی نظر میں گوارا ہے۔ کویت کے فقہی انسا ئیکلوپیڈیا میں ہے : وإنما شرعت الغيرة لحفظ الأنساب وهو من مقاصد الشريعة ولو تسامح الناس بذلك لاختلطت الأنساب لذا قيل: كل أمة وضعت الغيرة فى رجالها … ومن لا يغار على أهله ومحارمه يسمى ديوثا والدياثة من الرذائل التي ورد فيها وعيد شديد … (ثلاثة لا ينظر الله إليهم يوم القيامة: والديوث)“ (الموسوعة الفقہية : 31/341) ”شریعت ِاسلامیہ میں نسل ونسب کی حفاظت کے لئے غیرت کو ایک مقام دیا گیا ہے۔ اگر