کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 42
پائی جاتی۔ ہمارے ہاں ایسے جرائم کی وجہ دراصل یہ ہے کہ غیراسلامی قانون کی بنا پر مجرم کو قرار واقعی سزا ملنے یا جلدی مقدمہ نمٹنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں ۔ ایسی حالت میں ایسا جارح مرد نہ صرف متاثرین کے لئے ایک چیلنج بلکہ برائی کا ایک اشتہاربھی بنا رہتا ہے۔
دفاع اور نہی عن المنكرکے تصورات بالکل جداگانہ نہیں بلکہ اپنی ذات سے دفاع کے تصور میں بھی بیوی یاشوہر کا یہ نظریہ شامل ہے کہ چونکہ یہ برائی ہے، اس لئے اس کو انجام پانے سے روکا جائے گویا یہ برائی سے دفاع ہے۔ دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ایسے کئی واقعات پیش آئے اور انہوں نے بھی یہی فیصلے کیے، چنانچہ مذکورہ فقہی موقفوں کی بنیاد یہی واقعات ہیں ۔
دفاع یا نہی عن المنکرمیں قتل کرنے کی کئی صورتیں ہیں :
(1)عورت کا اپنے دفاع میں حملہ آور کو قتل کردینا :
خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم کے دو رمیں ایسے بعض واقعات پیش آئے اور انہوں نے مقتول کا خون رائیگاں قرار دیا۔ یہ واقعات حسب ِذیل ہیں :
(1) عبداللہ بن عمیر سے مروی ہے کہ ”ایک شخص نے قبیلہ ہذیل کے کچھ لوگوں کی دعوت کی اوراپنی باندی کو لکڑیاں کاٹنے کے لئے بھیجا۔ مہمانوں میں سے ایک مہمان کو وہ پسند آگئی اور وہ اس کے پیچھے چل پڑا اور اس کی عصمت لوٹنے کا طلب گار ہوا، لیکن اس باندی نے انکار کردیا۔ تھوڑی دیر ان میں کشمکش ہوتی رہی پھر وہ اپنے آپ کو چھڑانے میں کامیاب ہوگئی اور اس نے ایک پتھر اُٹھاکر اس شخص کے پیٹ پر مارا دیا جس سے اس کا جگر پھٹ گیا اور وہ مرگیا۔ پھر وھ اپنے گھر والوں کے پاس پہنچی اور انہیں سارا واقعہ سنایا، اس کے گھر والے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے کر گئے اور آپ رضی اللہ عنہ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معاملہ کی تحقیق کے لئے کچھ لوگوں کو بھیجا اور انہوں نے موقع پر ایسے آثار دیکھے جس سے دونوں میں کشمکش کا ثبوت ملتا تھا، تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ نے جسے مارا ہے، اس کی دیت نہیں دی جاسکتی۔“ (مصنف عبدالرزاق: 9/435، المحلى:8/25، سنن بيہقى: 7/337 وأقضية الخلفاء الراشدين:1/578، فقہ عمر:213)
(2)لیث بن سعد رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ ایک روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مردہ اَمرد(بھیگی مسوں والا) لڑکا لایا گیا جو راستے کے ایک طرف مرا ہوا پایا گیا تھا۔ ایک سال تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس مقتول کے قاتل کا پتہ لگاتے اور اللہ سے دعا کرتے رہے حتیٰ کہ اُسی مقام پر سال بعد ایک نومولود پڑ ا ہوا ملا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو شک پیدا ہوا۔ تحقیقات کے بعد پتہ چلاکہ ایک انصاری صحابی کی بیٹی اس کی ماں ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس عورت سے تفتیش کی تو اس نے بتایا کہ دھوکے سے وہ