کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 41
بات درست نہیں کیونکہ اسلام کی رو سے گھر میں کسی آدمی کو داخلہ کی اجازت دینا صرف مرد کا حق ہے اور عورت یہ حق اس کی مرضی اور تابعداری میں ہی استعمال کرنے کی مجازہے۔ اس سلسلے میں امّ المومنین حضرت اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا بنت ِابی سفیان کا مشہور واقعہ دلیل ہے جس میں اُمّ المومنین نے اپنے باپ ابو سفیان کی آمد پر ، ان کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھتے ہوئے بستر لپیٹ لیا اورکھا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر کسی مشرک کا بیٹھنا گوارا نہیں کرتی۔ جب اُمّ المومنین نے یہ واقعہ نبی کو آنے پر بتلایا تو آپ نے جواباً کچھ نہ کہا۔ (سیرۃ ابن ہشام: 4/55)
ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(ولكم عليهن أن لا يوطئن فُرُشكم أحدًا تكرهونه) (صحیح مسلم)
”اُن (بیویوں پر) پرتمہارا یہ حق ہے کہ وہ تمہارے گھرمیں ان لوگوں کو نہ آنے دیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو…“
٭ دفاع اور نہی عن المنکرکے سلسلے میں جسٹس عبد القادر عودہ شہید رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد بحثیں کی ہیں جن میں سے اہم نکات حسب ِذیل ہیں :
٭ دفاع کے لئے یہی ضروری ہے کہ حملہ کا تصور ظن غالب کے درجے میں ہو، نہ کہ وہ زیادتی بالفعل موجود ہو۔ ( صفحہ 573)
٭ دفاع کے تقاضے میں کئے گئے افعال مباح ہیں ،ان پر کوئی سزانہیں ۔(صفحہ:1/ 580)
٭ حملہ آور کے دفاع کیلئے کوئی اور ممکن وسیلہ موجود نہ ہو۔ بالفرض حملہ آور کو چیخ وپکار کرکے روکا جاسکتاہے توایسی صورت میں اسے قتل کرنا درست نہیں ۔ (حاشیہ ابن عابدین: 5/482) مدافعت اسی قدر قوت سے ہو، جس قدر قوت زیادتی کوروکنے کیلئے ناگزیر ہے۔(صفحہ575)
”اگر مدافعت لاٹھی سے ممکن تھی مگر اس نے ہاتھ پیر کاٹ دیا تو تاوان لازم آئے گا۔“ (576)
٭ ”جارحیت اور دفاع باہم مربوط ہیں ۔ جارحیت کے خاتمے کے بعد دفاعی قدم کا کوئی تصور نہیں اور اس پر وہ مسؤل ہوگا، البتہ اگر کوئی چور مال لے کر بھاگ جائے تو دفاع کرنے والے تعاقب کرکے اس سے مال واپس چھین سکتا ہے، جس کے لئے اسے قتل بھی کرنا پڑے تو جائز ہوگا۔“
(ایضا ، ص: 580 بحوالہ حاشیہ ابن عابدین: 5/274)
محرم عورت کی جبراً یا اس کی رضامندی سے عصمت دری کرکے بھاگ جانے والے شخص کو قتل کرنا اس بدکاری کو واپس تو نہیں لاتا، البتہ اس میں سماجی سطح پر مرد کی ناموس کوقدرے بہتر مقام حاصل ہوجاتا ہے، لیکن اس سے بھی اصل بدکاری میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اس لئے ایسے جارح کو قتل کرنا حد سے بڑھے جذبہ غیرت کی بنا پرہے جس کی شرع میں حمایت نہیں