کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 40
اسی فرقہ کی ایک شاخ ہے۔ ان کے نزدیک وعند الهادوية أنه يجوز للرجل أن يقتل من وجده مع زوجته وأمته وولده حال الفعل وأما بعده فيقاد به إن كان بكرا (نیل الاوطار:6/319) ” جب کوئی شخص دورانِ بدکاری اپنی بیوی یا لونڈی کو رنگے ہاتھوں پکڑ لے تو ایسی صورت میں اس کے لئے قتل کرنا جائز ہے،لیکن بدکاری کے وقوعہ کے بعد اگر وہ ایسا کرے تومقتول کے کنوارا ہونے کی صورت میں اس کو تاوان ادا کرنا ہوگا۔“ ٭ ’کنز الدقائق‘ میں ہی ہے کہ ہندوانی سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیرمرد کو ملوث دیکھتا ہے کہ شوہر کے لئے اس آدمی کوقتل کرنا جائز ہے؟ تو اُنہوں نے جواب دیا : إن كان يعلم أنه ينزجر بالصياح والضرب بما دون السلاح لا وإن كان يعلم أنه لاينزجر إلا بالقتل حل له القتل وإن طاوعه المرأة حل له قتلها أيضًا وفي المنية رأىٰ رجلا مع امرأته وهو يزني بها أو مع محرمه وهما مطاوعتان قتل الرجل والمراة جميعًا (کنز الدقائق:5/45) ”اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ چیخ و پکار یا اسلحہ کے بغیر مارپیٹ سے مجرم بھاگ جائے گا تو اس صورت میں قتل کرناجائز نہیں ہے۔ البتہ ایسے مجرم کے باز آجانے کا امکان نہ ہو تو تب اسی کو قتل کرناجائز ہے اور اگر عورت بھی خوشی سے اس مجرم کے ساتھ شریک تھی تو مرد کا اس عورت کو بھی قتل کرنا درست ہے۔ اورحنفی فقہ کی مشہور کتاب منیة المصلی میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی یا اپنی محرم عورت کے ساتھ کسی آدمی کو گناہ کرتے ہوئے دیکھا اور وہ دونوں اس بدکاری میں برضا ورغبت شریک تھے تو اس مرد نے زانی اور زانیہ دونوں کوقتل کردیا۔ “ ٭ ڈاکٹر وہبہ زحیلی فقہا کے تمام مذاہب کا خلاصہ لکھتے ہیں : لا قصاص ولا دية في المذاهب الأربعة على من وجد رجلا يزني بامراته فقتله لما روي عن عمر (الفقہ الاسلامي: ص5/ 759) ”مسالک ِاربعہ کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بیوی سے زنا کرنے والے کو قتل کرنے پر قاتل سے کوئی قصاص و دیت نہیں جیسا کہ اس کی دلیل حضرت عمر کا واقعہ ہے ۔“ جو آگے آرہا ہے ان فقہی اقتباسات سے پتہ چلتا ہے کہ اس تغییر منکر کے نہ صرف بیوی اور شوہر بلکہ تمام مسلمان مخاطب ہیں ۔ جب بیوی مجبور ہو تو یہ اقدام دفاع کی قبیل سے اور جب بیوی راضی ہو تو یہ اقدام نہي عن المنكرکی قبیل سے ہو گا۔ (اسلام کا فوجداری قانون :1/607) ٭ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ عورت کی رضامندی کی صورت میں جارح مرد کا گھر میں داخل ہونا حرم میں زیادتی نہیں بنتاکیونکہ اس کی بنیاد تو گھر والی کی رضامندی ہے۔ لیکن یہ