کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 4
تینوں مذکورہ مجوزہ آئینی بلوں کے ایک جائزے کے ساتھ ساتھ ان کے ممکنہ اثرات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ (1) وفاقی حکومت کا ترمیمی مسودہ وفاقی حکومت نے حدود آرڈیننس، قانون توہین رسالت اور قانون دیت وقصاص سے متعلق رائج الوقت قوانین میں تبدیلیوں کے لئے ایک بل تیار کیا ہے جس کا مسودہ وزیرمملکت برائے قانون کے وستخطوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں برائے مطالعہ تقسیم کیا گیا ہے۔ اس مسودے میں مذکورہ بالا قوانین میں ترمیم و تبدل کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں ، ان کا ترجمہ حسب ِذیل ہے : ”غیرت کے نام پر قتل اور اسی عنوان سے کئے گئے دیگر جرائم جن میں ’کاروکاری‘ اور ’سیاہ کاری‘ وغیرہ شامل ہیں ، عوام الناس اور بنیادی انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں میں ہمیشہ سے زیر بحث چلے آرہے ہیں ۔ لیکن گذشتہ چند سالوں کے دوران یہ مباحث زیادہ اہمیت اختیا رکرتے چلے گئے ہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ مختلف عوامی سطحوں کے ساتھ ساتھ پولیس نے بھی غیرت کے نام پر کئے جانے والے جرائم کو قابل معافی تصور کرلیا ہے۔ ایسے جرائم میں سے بہت سے واقعات پر اکثر اوقات پرچہ تک درج نہیں کیا جاتا یا پھر مناسب تحقیق نہیں کی جاتی، مزید یہ کہ اس کے بعد سنجیدگی سے مقدمات کی پیروی سے گریز کیا جاتاہے۔ بہت سے مقدمات میں صلح کروا دی جاتی ہے۔ اس طرح مجرم اکثر اوقات سزا سے صاف بچ نکلتے ہیں اور اگر سزا ہو بھی تو جرم کی شدت کے تناسب سے نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ غیرت کے نام پر کئے جانے والے جرائم کی سزاوٴں میں اضافہ تجویز کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ یہ بھی محسوس کیا گیا ہے کہ بالخصوص پولیس اہلکار توہین رسالت کے مقدمات میں اور حدود آرڈیننس کے تحت جرمِ زنا میں ملوث خواتین کے معاملات میں قانون کا غلط استعمال کررہے ہیں ۔ اس لئے ان معاملات میں پولیس کی تفتیش کا معیا ربلند کیا جانا مقصود ہے۔ تاکہ ایسے جرائم کی تفتیش سپرنٹنڈنٹ پولیس کے عہدے سے کم رتبے کا کوئی اہلکار نہ کرسکے۔ اور زنا کے زیر الزام کسی خاتون کو عدالت کی اجازت کے بغیر پولیس گرفتار نہ کرسکے۔ زیر تجویز بل انہی مقاصد کے حصول کے لئے وضع کیا گیا ہے۔“ مذکورہ بالا زیر تجویز بل کی دفعہ نمبر 1 میں کہا گیا ہے کہ اس قانون کا نام ’دی کریمنل لاء