کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 38
برائی کوروکنے کا یہ طریقہ صرف غیرت کے قتل کے بارے میں ہی نہیں بلکہ دیگر جرائم کے بارے میں بھی ہے۔ اس صورت میں یہ بات بھی عائد نہیں ہوتی کہ قاتل نے قانون کو ہاتھ میں کیوں لیا ہے، کیوں کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے یہاں اصل مسئلہ برائی کو انجام پانے سے روکنا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(من قتل دون ماله فهو شهيد،من قتل دون أهله فهو شهيد)
”جوانسان اپنے مال کی حفاظت میں مارا گیا یا اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا، وہ شہید ہے۔“ (ترمذی:1421)
اور ’اہل‘کی حفاظت میں اسکے تمام حقوق کی حفاظت شامل ہے۔
مزید برآں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(الدار حرم فمن دخل على حرمك فاقتله ) (مسند احمد:22266)
”گھر حرم ہے جو شخص تمہارے حرم میں داخل ہو، اس کو قتل کردو۔“
ڈاکٹر وہبہ زحیلی اپنی کتاب الفقہ الإسلامي وأدلتہ (5/759 ) میں لکھتے ہیں :
”فقہاء ِاربعہ (حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ ) کا اس امر پر اتفاق ہے کہ کوئی شخص اپنی جان مال آبرو کی حفاظت کے لئے قتل تک کردے تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا۔“ (حاشیہ ابن عابدین: 6/546،المغنی: 10/351 تا 353، مغنی المحتاج: 4/194)
٭ برائی سے دفاع نہی عن المنکر: اگر بدکاری میں دونوں فریقین راضی ہوں تو یہ امر بھی ان کو عوامی روک ٹوک سے حفاظت عطا نہیں کرتا۔ چنانچہ بیوی یا عورت کی رضا مندی کی صورت میں ہونے والی بدکاری کو روکنا بھی ہرمسلمان پر نہي عن المنكرکی رو سے لازمی ہے۔نہی عن المنکرایک طرف عدالت یا حکومت کی بجائے ہر مسلمان کا فرض ہے تو دوسری طرف اس کے تین مراحل (ہاتہ،زبان اور دل) بھی احادیث میں بیان ہوئے ہیں ۔چنانچہ بعض علما نے اس روکنے میں تدریج کا بھی لحاظ کیا ہے کہ پہلے پہل اس کو شور شرابے سے روکنا چاہیے، پھر مارپیٹ سے حتیٰ کہ پھر بھی اگر وہ جرم سے باز نہ آئے اور قتل تک بھی نوبت پہنچ جائے تواس سے دریغ نہ کرے ۔ اس سلسلے میں حنفی فقہا کا موقف یہ ہے کہ
رأى رجلا يزني بامرأته أو بامرأة رجل آخر وهو محصن فصاح به ولم يهرب ولم يمتنع من الزنا حل لهٰذا الرجل قتله وإن قتله فلا قصاص عليه
”کوئی شادی شدہ شخص اس کی یا دوسرے کی بیوی سے زنا کررہا ہے اور آدمی کی چیخ پکار کے باوجود نہ تو زنا سے باز آتا ہے اور نہ بھاگتا ہے تو اس آدمی کے لئے ایسے شخص کو قتل کرنا جائز ہے، اگر وہ اسے قتل کردے تو اس پر کوئی قصاص نہیں ۔“ ( البحر الرائق شرح کنز الدقائق 5/44)
٭ یہی موقف شافعی فقہ کی مغني المحتاج میں مصنف نے اختیار کیا ہے۔ (5/530)