کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 37
اب نہ تو اسلامی عدالتیں رہیں اور نہ نیکی اور تقویٰ کا وہ معیار باقی رہا۔ اس لیے ہمیں اس امر سے اتفاق نہیں کہ لعان ہی اس مسئلہ کا موزوں اور مکمل حل ہے۔ پاکستانی عدالتیں بھی لعان کی تائید اسی لئے کرتی ہیں کہ اس سے عورت سے سزا رفع ہوجاتی ہے۔ تیسرا مرحلہ دورانِ بدکاری اس صورت کا تعلق بدکاری کے وقوعہ کے دوران سے ہے، جب بدکاری کا فعل ہورہا ہو تو اس صورت میں کیا کرنا چاہئے۔ مصر کے معروف اسلامی ماہر قانون جسٹس عبد القادر عودہ شہید نے ایسی برائی کو روکنے کی دوصورتوں پیش کی ہیں ، اس سلسلے میں تفصیلی بحث کے لئے ان کی کتاب التشریع الجنائي الإسلامي کا اُردو ترجمہ ’اسلام کا فوجداری قانون‘ (جلد اوّل، صفحہ 565 تا 608) کا مطالعہ مفید ہوگا۔ ٭ حملہ آور سے دفاع : مختلف قرائن سے اس امر کا پتہ چلے کہ عورت اس فعل بد کے لئے راضی نہیں تھی بلکہ اس کی کمزوری کا فائدہ اُٹھایا گیاہے۔ ایسی صورت میں عورت کاخود اپنی ذات کا دفاع کرنا یا شوہر پر اپنی بیوی کا دفاع کرنا دونوں شریعت کی رو سے واجب ہیں ۔اس دفاع کے دوران اگر عورت یا شوہر کے ہاتھوں زنا بالجبر کا مرتکب حملہ آور قتل بھی ہوجائے تو اس کا خون رائیگاں جائے گا۔ ایسے حملہ آور کے قاتل کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے دفاعی اقدام کو ثابت کرے۔ اس کی شرط یہ ہے کہ یہ دورانِ بدکاری یا بعض اوقات اس سے عین قبل اس کو روکنے کے لئے اُٹھایا جاتا ہے، نہ کہ بدکاری کا وقوعہ ہوجانے کے بعد۔ ایسے ہی برائی کو روکتے یا دفاع کرتے ہوئے حملہ آور کو بعض اوقات سنگین ترین نقصان سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔لیکن روکنے کی کوشش میں مقتول کے معصوم نہ ہونے کی بنا پر اس کا خون کلی رائیگاں جاتا ہے۔ قتل غیرت میں بعض اوقات جارح مرد کے قتل٭ ہوجانے کا تعلق اسی صورت سے ہے۔ ٭ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیرت کے نام پر سنگین اقدام میں رعایت کا اصل فائدہ عورت کو ہی پہنچتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں عورت کو غیرمردوں سے تحفظ حاصل ہوجاتا ہے اور مرد ان کے تحفظ ودفاع کے پابند ہوتے ہیں ۔لیکن در اصل جس قتل غیرت سے این جی اوز مردوں کو روکنا چاہتی ہیں ، اس سے مراد عورت کی رضامندی والا جرم ہے کیونکہ جبر کی صورت میں جارح مرد کو سنگین سزا دینے سے اُنہیں بھی اختلاف نہیں ۔ تو ایسی صورت میں عورت کی رضامندی سے ہونیوالے اس فعل بدکاری کو کیونکر قانونی تحفظ حاصل ہو جبکہ یہ بھی اِسی طرح ایک جرم ہی ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ مغرب زدہ خواتین اپنے اوپر مرد حضرات کی برتر انتظامی نگرانی اور اپنے کوتاہیوں پر گرفت کی اجازت چھین کر انگریزی قانون کی پروردہ عدالتوں کو دینا چاہتی ہیں ۔