کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 36
دوسرا مرحلہ
اگر کوئی شخص اپنی بیوی کوواضح طور پر گناہ میں ملوث پائے اور انتظامی اقدامات سے بیوی کو کنٹرول کرنے کی قدرت نہ رکھے تو ایسی صورت میں برائی کی روک تھام کے لئے لعان کا راستہ موجود ہے۔ چنانچہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے اسی مخمصے کانبی کریم کے سامنے اظہار کیا
”اگر وہ بات کرتا ہے تو یہ بہت بڑا الزام ہے اورآپ لوگ اسے (ثابت نہ کرنے پرقذف کی) سزا دیں گے اور اگر خاموش رہے توگویا وہ وہ ایک سنگین معاملہ کو نظر انداز کررہا ہے کیا وہ اس آدمی کو قتل کردے؟ “ (صحیح مسلم: 3726 اور صحیح سنن ابو داود: 1973)
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شریعت نے ا س سلسلے میں لعان کا راستہ دکھا کر گویا اس کا ایک مکمل حل پیش کردیاہے، لیکن یہ واضح رہنا چاہئے کہ اوّل تو’لعان‘ صرف میاں بیوی کے درمیان ہوسکتا ہے، جبکہ غیرت کے جرائم صرف میاں بیوی کے مابین ہی نہیں ہوتے بلکہ بھائی بھی اپنی بہن یا باپ بھی بیٹی پر غیرت کہا سکتا ہے ۔ شوہر تو طلاق دے کر اپنا تعلق توڑ سکتا ہے، لیکن بھائی اور باپ اس تعلق کو ختم کرنے پر بھی قادر نہیں ، اس لئے بعض صورتوں میں یہ شوہر کے بجائے دوسرے محرم رشتہ داروں کے لئے زیادہ سنگین مسئلہ بن جاتاہے۔
ثانیاً؛ ’لعان‘ کی صورت میں بھی عورت چونکہ سزا سے بچ جاتی ہے اور اُلٹا اس مرد کی عزت جس نے بیوی کو اپنی آنکھوں سے زنا میں ملوث پایا ہے، معاشرے میں اُچھلتی ہے کیونکہ کسی خاندان کی عزت کا تصور عورت کی بجائے مرد سے وابستہ ہوتا ہے۔ بیوی کو چھوڑنے کا جو حق اسے طلاق کی صورت پہلے میسر تھا، اس میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ پھرحق مہر کی واپسی کا مطالبہ بھی شوہر نہیں کرسکتا۔ اس لئے ’لعان‘ تو صرف ایک رستہ ہے اس حمل یا اس بچہ کی ذمہ داری سے بچنے کا جو اس کے ذمے پڑ رہا ہے وگرنہ ’لعان‘ اس تمام تر مسئلے کا مکمل حل نہیں ہے۔
دورِ نبوی میں بھی لعان کے ایک واقعہ میں عورت کازنا بالکل واضح ہو گیا تھا ا ور نبی کریم نے فرمایا کہ ” اگر میں نے گواہ کے بغیر کسی کو سزا دیناہوتی تواس عورت کو دیتا۔“لیکن چونکہ اس عورت نے اپنے قبیلہ کو رسوائی سے بچانے کی خاطر قسمیں اُٹھالیں ، اس لیے اُس سے یہ سزاے رجم رفع ہو گئی۔ بعد کے ادوار میں جب نیکی اور صداقت کا وہ معیار نہ رہا تو عملاًلعان پر عمل بہت کم ہو گیا،یہی وجہ ہے کہ اسلام کی عدالتی تاریخ میں لعان کے واقعات شاذ و نادر ہی ملتے ہیں حتیٰ کے ’خلفا راشدین کے فیصلوں پر مبنی کتاب‘ میں عنوان قائم کرنے کے بعد اس کتاب کا موٴلف لعان کا ایک واقعہ بھی پیش نہیں کر سکا۔ (دیکھئے:ص 259) اور موجودہ حالات میں