کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 35
پہلا مرحلہ
ایسے حالات پیش آنے کی صورت میں شوہر کا فرض ہے کہ اس برائی کواپنے مختلف انتظامی اختیارات سے روکنے کی کوشش کرے کیونکہ جس طرح اسلام برائی کو پھیلانے اور سربازار اپنی اور اپنی بیوی کی عزت رسوا کرنے کی حمایت نہیں کرتااسی طرح مسلمانوں کو اُن طریقوں کواپنانے کا پابند کرتا ہے جن سے زنا کے امکانات بھی معدوم ہوجائیں ۔چنانچہ قرآن کریم میں زنا سے پرہیز کرنے کی بجائے اس کے قریب پھٹکنے سے بھی مسلمانوں کوروکا گیا ہے۔(الاسراء: 32)
٭ اس کی دلیل اوپر بیان کردہ حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے ، جس میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی کریم نے اس واقعہ کوناپسند فرمایا اور جواب دینے سے گریز کیا، حتیٰ کہ جب حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں اصرار کیا تو آپ نے اُنہیں ’لعان‘ کا طریقہ بتایا، جبکہ لعان کی آیات آپ پر اُس سے قبل ہلال بن اُمیہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ میں نازل ہوچکی تھیں ۔
ایسے ہی ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے جنہیں نبی نے بار بار زنا کا اعتراف کرنے پر رجم کی سزا تو دی،لیکن شروع میں اس کے اوّلین تین اعترافوں کونظر انداز کرتے رہے۔ (مسلم: 4406)
یہ نظر انداز کرنا خصوصاً زناسے متعلق معاملات میں ہے ،کیونکہ اُس کے تذکرے سے بھی بے حیائی کو فروغ حاصل ہوتا ہے، جب اس برائی کا علم ایک دو افراد کو ہی ہو تب تو اس کو چھپانا اور دیگر ذرائع سے کنٹرول کرنا بہتر ہے، اگر یہ بدکاری متعدد لوگوں کے علم میں آجائے تو ایسی صورت میں اس کو چھپانا اور اسلامی عدالت سے بچانا گویا بدکاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ ایسے ہی جب مسئلہ عدالت میں پیش ہوجائے تب توگواہی کو چھپانا ایک سنگین جرم ہے۔
٭ اس کی اہم دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ صریح فرمان ہے جسے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے :
”ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میری بیوی چھونے والے کا ہاتھ نہیں روکتی (یعنی اس کے کردار کے بارے میں شکایت کی) تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو (طلاق دے کر) الگ کردے۔ اس نے کہا: مجھے یہ ڈر ہے کہ میں اس کے بغیر رہ نہیں سکوں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اُسی٭سے نباہ کر۔ “ (صحیح سنن ابو داود: 1804)
٭ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بے غیرتی میں بیوی کے بارے میں شکوک و شبہات کو نظرانداز بھی نہیں کرنا چاہیے ۔ اسی لیے آپ نے ’ طلاق ‘ جیسے مکروہ اقدام کرنے کو کہا لیکن جب اس نے اپنی مجبوری بتائی تو پھر کمزور ترین رویہ اختیار کرنے کی اجازت بھی دے دی ۔