کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 34
(3) اس سلسلے میں تیسرا موقف حنابلہ کا ہے جس میں علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ او رابن قیم رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں ۔ ان کی نظر میں یہاں مسئلہ قاتل کو حملہ آور سے دفاع کا مسئلہ درپیش نہیں بلکہ کسی مسلمان کی عزت میں دخل اندازی کرنے والے کی سزا ہی یہ ہے کہ اسے قتل کیا جائے۔اس موقف کے شریعت سے اور بھی بہت سے دلائل ہیں جو آگے تفصیل سے آرہے ہیں ۔ (4)جدید قانونی تصور کی رو سے ایسا قتل جواشتعال کی حالت میں بے قابو ہوتے ہوئے سرزد ہو جائے تو اس کو ارادتاً قتل کی بجائے قتل خطا سمجھا جائے کیونکہ اس میں قاتل کا عزم شامل نہیں تھا۔ یہی قانون اس وقت متعدد اسلامی ممالک بشمول پاکستان میں نافذالعمل ہے اور امریکہ ویورپ میں فوری اشتعال کے مجرموں کوخصوصی رعایت دی جاتی ہے جس پر اسلامی ممالک او ریورپی عدالتوں کے کئی فیصلے شاہد ہیں ۔ آئندہ صفحات میں ان چاروں موقفوں کے دلائل اور تصورات کو بالتفصیل زیر بحث لایا جائے گا۔ پہلے اور تیسرے موقف والوں کے یہ نکتہ نظر اپنانے کی وجہ نبی کریم کی سابقہ احادیث کے مفہوم میں اختلاف ہونا ہے۔البتہ دوسرا موقف بھی جرم وسزا کے حوالے سے انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ان چاروں موقفوں میں یہ امر مشترک ہے کہ سب وقوعہ بدکاری کے ثبوت کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں ، اور اسی صورت میں قتل کو بدکاری کا رد عمل سمجھ کر قاتل کو رعایت دیتے ہیں ۔ یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ کسی لفظ کا عام مطلب اس کے مخصوص اصطلاحی مفہوم سے جدا ہوتا ہے۔ قتل عمد جرم وسزا کی ایک اصطلاح ہے لیکن ہمارے پیش نظر مسئلہ میں اکثر لوگوں نے اس لفظ کے درست استعمال اور مفہوم میں غلطی کھائی ہے۔جس طرح ہرگواہ کو گواہ ہی کہا جاتا ہے چاہے وہ سچا ہو یا جھوٹا، اس طرح ارادے سے کیا جانے والا ہر قتل امر واقعہ کے اعتبار سے تو قتل عمد ہی ہے، ان میں جنگ میں مقابل کو قتل کرنا اور قاضی کے حکم پر مجرم کوقتل کرنا بھی شامل ہے لیکن اگر اس کو سزا کے اعتبا رسے دیکھا جائے تو اس کی سزا قتل عمد والی نہیں ۔ اس کی و جہ یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں اس جرم کی نوعیت وہ نہیں جوبظاہر قتل کی صورت میں نظر آرہی ہے۔ عدل وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ نبی کریم کے فرامین سے نہ توغیرت کے جرائم اور قتل کی حوصلہ افزائی ہو اور نہ ہی بدکاری یا بے راہ روی کرنے والوں کو اجازت یا عوامی روک ٹوک سے تحفظ کا کھلا لائسنس مل جائے۔ایسے ہی اسلام غیرت کے قتل کے بارے میں جرمِ قتل اور غیرت دونوں کو اہمیت دیتاہے، نہ تو غیرت کو نظرانداز کرتا ہے اور نہ جرمِ قتل کی ترغیب دیتا ہے۔ اسلام میں اس جرم کی روک تھام کے لیے حسب ِذیل تدریجی مراحل ہیں :