کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 33
غیرت کے نام پر قتل کا مسئلہ اور شریعت ِاسلامیہ کے رجحانات مذکورہ بالا احادیث سے بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں غیرت کے قتل کی اجازت نہیں ، البتہ ائمہ محدثین رحمۃ اللہ علیہ اور فقہا کرام رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم اور دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں ان احادیث کے مقصد ومدعا میں اختلاف کیاہے۔ایسے ہی نبی کے فرمان کے ظاہر ی حکم کی بنا پر اگر اس کو جرم تصور کیا جائے تو پھریہ سوال باقی رہتا ہے کہ اس جرم کی نوعیت کیا ہے؟کیا قتل غیرت کرنے والے کو قتل کا مجرم سمجھا جائے یا قانون کو ہاتھ میں لینے کا؟کیونکہ نبی کریم نے اس فعل سے روکا تو ہے لیکن اس پر سزاے قتل لاگو نہیں کی گویا آپ کے منع کرنے کے بعد یہ ایک جرم ہے۔ جرم کے تعین کے بعد اس کی سزاکی نوعیت کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ چنانچہ اس مسئلہ کے ساتھ اسلامی شریعت کے دیگر تصورات اور قرآن وحدیث کے احکامات کوملاکر دیکھا جائے تو اس بارے میں چار قسم کے رجحانات ملتے ہیں : (1) بعض اہل علم قتل غیرت کو تو فرمانِ نبوی کی بنا پر جرم سمجھتے ہیں لیکن دورانِ بدکاری اس فعل کو ناممکن بنانے کی کوشش کرنا خصوصاً میاں بیوی کے لئے اورعموما تمام لوگوں کے لئے ضروری سمجھتے ہیں ۔ ان کا یہ موقف اپنی ذات کے دفاع یا نہی عن المنکر کے اسلامی تصور کی بنا پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا قتل بذاتِ خود ہی جرم نہیں بلکہ در اصل ایک سنگین جرم کا ردّ عمل ہے اور قرآنِ کریم کا حکم ہے کہ ”تم پر جو زیادتی کرے تو اس کی زیادتی کا ویسے ہی اسے جواب دو۔“ اور اس سلسلے میں حکومت سے مدد لینے کو بھی ضروری قرار نہیں دیا گیا۔ (2) اگر چہ دورانِ فعل بدکاری میں شریک مردوزن کونہ روکنے کا موقف کسی اہل علم نے نہیں اپنایا، اس کے باوجود اگر نبی کریم کے فرمان کا یہی تقاضا فرض کر لیا جائے تو ایسی صورت میں اس جرم کی سزا کے بارے میں تفصیل ہے۔گویا ایسا کرنا تو نہیں چاہئے اور حکومت سے ایسے مجرمین کو سزا دلوانا چاہئے لیکن اگر کوئی غیرت وحمیت میں قتل کردے تواس کو کیا سزا دی جائے؟ یہی سوال تب بھی پیدا ہوتا ہے جب ایک قاتل وقوعہ بدکاری کے بعد مرتکبین زنا کو قتل کردے۔ فقہا کا متفقہ موقف یہ ہے کہ قاتل اگر شادی شدہ مقتولین کا بدکاری میں ملوث ہونا ثابت کردے تو ایسی صورت میں اس کو قانون کو ہاتھ میں لینے کی سزا دی جائے گی، نہ کہ قتل کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے جس کو قتل کیا، وہ اسلامی قانون کی نظر میں بھی قابل گردن زدنی ہی تھا۔ ایسے ہی زنا کی صورت میں اس کے حق میں دست درازی ہوئی تھی اور قصاص لینا دراصل اُسی قاتل کا حق تھا، جس کے لئے اسے عدالت سے ہی مدد لینا چاہئے تھی۔