کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 32
قتل غیرت کے بارے میں نرم رویہ کا اظہار کرتے کرتے رک گئے اورآپ نے فرمایا:
(كفى بالسيف ’شا‘) يريد أن يقول ’شاهدا‘ فلم يتم الكلمة حتى قال (إذًا يتتابع فيه السكران والغيران)(کنز العمال: 13613)
”تلوار ہی بطورِ’گوا‘ کافی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم شاہدکہنا چاہتے تھے (یعنی دونوں برا کام کرتے ہوئے مارے گئے تو ان کا موقعہ پر مارا جانا ہی ان کے جرم کی شہادت ہے) لیکن آپ نے یہ کلمہ پورا نہیں کیا اور فرمایا: یوں تو مدہوش اور زیادہ غیرت مند اس کو معمول ہی بنا لیں گے۔ “ (یعنی یوں تو کشت وخون کا دروازہ کھل جائے گا)
پاکستانی معاشرے میں قتل غیرت کا پس منظر
پاکستان کے قبائلی علاقہ جات، بالخصوص سندھ اور جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں میں اس نوعیت کے قتل کے واقعات بکثرت ہوتے ہیں اورجب سے عدالتوں نے نکاح کے بارے میں خاندان کی رائے کونظر انداز کرکے صرف لڑکا لڑکی کے بیان کی بنیاد پر نکاح کا فیصلہ کرنا شروع کردیا ہے ، عام پاکستانی معاشرے میں بھی اس نوعیت کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔
قبائلی علاقوں میں اس نوعیت کے قتل کے فیصلے جرگے یا پنجایتوں کے ذریعے ہوتے ہیں اور اس میں ظلم کی بہت سی ایسی صورتیں پائی جاتی ہیں کہ بسا اوقات مردوں کے جرم کو نظر انداز کر کے عورتوں کو ایسی ثانوی حیثیت دی جاتی ہے جو اسلامی احکام سے میل نہیں کھاتی۔ یہ پنچایتی فیصلے کارو کاری یا کالا کالی وغیرہ مقامی رسومات کہلاتی ہیں جنہیں مغرب زدہ این جی اوز پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہیں ۔
اس بحث سے کارو کاری یا قبائلی علاقہ جات کی کسی رسم کی حمایت مقصود نہیں ،کیونکہ ان کے فیصلے بھی افراط وتفریط اور ظلم پر مبنی ہوتے ہیں ، ما سوا اس پہلو کے کہ ان کے یہاں عزت کے تحفظ کا تصور شدت سے پایا جاتا ہے، لیکن مناسب یہ تھا کہ وہ اس کی روک تھام اسلامی شریعت کے مطابق کرتے نہ کہ اپنی سمجھ بوجہ کے مطابق جرم کا علاج زیادتی سے کیا جائے۔ البتہ اس سخت رویہ کا یہ نتیجہ ضرورہے کہ ایسی سزاؤں کے نتیجے میں وہاں عصمت دری کے واقعات عام معاشروں سے کم ہیں اورجس تہذیب وتمد ن کے چمپئن مغرب وامریکہ بنے پھرتے ہیں ، اس تہذیب میں بغیر نکاح کے جنسی تعلقات نہ صرف یہ کہ معمول کا کام ہے بلکہ مرد وزن کی رضامندی کی صورت میں اسے جرم ہی نہیں سمجھا جاتا۔