کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 31
(اسمعوا إلىٰ ما يقول سيدكم،إنه لغيور وأنا أغير منه والله أغير منى) ”سنوسنو، اپنے سردار کی بات سنو! یہ بہت غیرت مند شخص ہے حالانکہ میں اس سے زیادہ غیرت والا ہوں اوراللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہیں۔“ (صحیح مسلم:3763) (iv) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ مغیرھ رضی اللہ عنہ بن شعبہ بھی یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ نے کہا: اگر میں کسی شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھ لوں تو میں کسی رعایت کے بغیر تلوار سے اس کا کام تمام کردوں گا۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی پہنچی تو آپ نے فرمایا: ( أتعجبون من غيرة سعد؟ فوالله! لأنا أغير منه والله أغير مني من أجل غيرة الله حرم الفواحش ماظهر منها وما بطن ولا شخص أغير من الله) ”کیا تم سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو، اللہ کی قسم! میں اس سے زیادہ غیرت رکھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے بھی زیادھ غیرت مند ہیں ۔ اسی غیرت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ظاہر اور مخفی گناہ حرام قرار دیے ہیں اور اللہ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی عذر قبول کرنے والا نہیں ہے… الخ “ (صحیح مسلم:3764 و بخاری:7416) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین سے بخوبی یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں غیرت کے نام پر قتل کی کوئی اجازت نہیں ہے بلکہ گواہ لانے کی تلقین پائی جاتی ہے اور یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے الفاظ ’لا‘ اور’نعم‘ کی صورت میں دو ٹوک موجود ہے۔ البتہ دوسری طرف اسلام میں غیرت کو نہ صرف قابل تحسین وصف قرار دیا گیا ہے بلکہ اس میں شدت کو بھی پسند کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی صفت قرار دیا ہے۔ نبی کریم کا فرمانِ ہے: (يا أمة محمد والله ما من أحد أغير من الله أن يزني عبده أو تزني أمته) ”اے امت ِمحمد یہ! اللہ کی قسم جب اللہ کا کوئی بندہ یا بندی زنا کا ارتکاب کرتے ہیں تو اس مکروہ فعل پراللہ سے زیادہ کسی کو غیرت نہیں آتی۔“ (صحیح بخاری: 1044) کوئی شخص اپنی عزت و غیرت کے بارے میں بے پرواہ ہو، ایسا تصور اسلامی معاشرے میں ناپید ہے بلکہ بقول حافظ ابن حجر ”غیرت‘ انسانی فطرت میں شامل ہے اور جو شخص غیرت نہیں رکھتا گویا وہ بدفطرت ہے۔“ (فتح الباری: 9/330) الغرض غیرت کا تصور مذاہب اور معاشرتی اقدار سے بالاتر ایک انسانی جذبہ ہے، جس کی مثالیں اسلام کے علاوہ مغربی معاشروں میں بھی عام ملتی ہیں ۔ تاہم اسلام کی ہدایت و تلقین یہی ہے کہ اپنے ماننے والوں میں نظم و ضبط پیدا کرے اور اُنہیں قانون کو ہاتھ میں لینے سے روکے رکھے۔جہاں تک نبی کریم کے غیرت وحمیت کے جذبات میں آکر قتل کرنے سے روک دینے کی حکمت کا تعلق ہے تو اس کی وضاحت ایک حدیث میں آئی ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم