کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 3
کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بل میں کچھ ایسی تبدیلیاں بھی تجویز کی گئی ہیں جن کے نفاذ کے بعد توہین رسالت کے حوالے سے دائر ہونے والے مقدمات کا طریقہ تفتیش بدل جائے گا اور ان مقدمات کو دائر ہونے کے بعد تفتیش کے مراحل ہی میں ختم کردینے کے امکانات اور مواقع بڑھ جائیں گے۔ (2)حکومتی بل کو ناکافی گرداننے والی پارٹی’ پیپلزپارٹی، پیٹریاٹ‘ نے خواتین کو اپنے ’حقوق‘ کے حوالے سے مضبوط بنانے کے لئے اپنی طرف سے بھی ایک بل اسمبلی میں پیش کیا۔ اس بل میں اپنی پسند سے محبت کی شادی کرنے والی خواتین کے رستے میں رکاوٹ بننے والے ماں باپ اور دیگر لوگوں کے لئے سزاے قید تجویز کی گئی ہے۔ اور رائج الوقت حدود قوانین بہ یک جنبش ِقلم مسترد اور کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ (3)ان دونوں بلوں کے مقابلے میں اسلامی قانونی حلقوں کی جانب سے رائج الوقت اسلامی قوانین وضوابط کو مزید مستحکم بنانے کے لئے ایک علیحدہ بل مرتب کرکے متعلقہ حلقوں میں تقسیم کیاگیا ہے۔ اس بل میں زور دیا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رائج الوقت تمام قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالا جانا لازمی قرار دیا جائے اور اس امر کی آئینی یقین دہانی عوام کومہیا کی جائے کہ آئندھ بھی کوئی ایسا قانون وضع اور نافذ نہیں کیا جاسکے گا جو کسی بھی طرح سے قرآن و سنت کی تعلیمات اور تقاضوں کے منافی یا ان سے متصادم ہو۔ مقامِ حیرت ہے کہ ابھی تک ا ن میں سے کوئی بھی بل بحث کے لئے قومی اسمبلی کے ایوان میں پیش نہیں کیا گیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ ان بلوں پر بحث بہت گرما گرم ہونے کا امکان ہے اور اس بحث کے نتیجے میں عوامی سطح پر بھی اشتعال اور بدامنی کے اندیشوں کو ردّ نہیں کیا جاسکتا۔ اس پس منظر کے ساتھ ساتھ اسی دوران جنرل پرویز مشرف کی وردی اُتارنے یا نہ اُتارنے کا فیصلہ بھی ہونے والاہے۔ وردی نہ اُتارنے کا فیصلہ بجائے خود ایک عوامی آتش فشاں ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لئے عین ممکن ہے کہ حدود آرڈیننس میں تبدیلیوں اور توہین رسالت کے قانون میں اندراجِ مقدمہ کے طریقے میں تبدیلی کا بل اس سال قومی اسمبلی میں زیر بحث نہ آسکے۔ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس تمام صورتِ حال کو عوامی آگہی اور معاملات کی بہتر تفہیم کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آنے والی سطور میں ہم