کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 28
خلاف ورزی کی اس کے علاوہ کوئی سزا نہیں ہو سکتی کہ یہ معاہدہ توڑ دیا جائے اور یہ حق صرف مرد کو نہیں ،عورت کو بھی حاصل ہے۔“ ( ملخصاً از ’اشراق‘ اگست 2004ء:ص40،41) ٭ اسی حلقے سے قریبی تعلق رکھنے والے جناب مقبول الرحیم مفتی لکھتے ہیں : ”جس اللہ نے یہ قانون نازل کیا اور جس رسول پر یہ نازل ہوا وہ غیرت اور اس کے جملہ تصورات سے ناواقف نہیں ہیں ۔ وہ غیرت کے علمبرداروں سے زیادہ غیرت مند ہیں ، لیکن غیرت کا یہ مطلب نہیں کہ ہر شخص جذبات میں آکر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے اور بلا تحقیق انسانی جانوں کے ضائع کرنے کو اپنا حق سمجھنے لگے۔“ (’قتل غیرت اور اسلامی تعلیمات‘ : روزنامہ ’انصاف‘ لاہور بابت 18،19 جولائی 2000ء دو اقساط ) تیسرا موقف ٭ اسی سے ملتا جلتا اُدہورا موقف پروفیسر مسز ثریا علوی نے اختیار کیا ہے ، ان کی نظر میں ”قتل غیرت بہرحال قتل عمد ہی ہے اور ان کے الفاظ میں بیوی کی بدچلنی دیکھ کر مرد خود کارروائی نہ کرے بلکہ معاملہ عدالت تک لائے اور اگر خود قتل ہی کردے تو اس جرم کا ثبوت اسے عدالت کو مہیاکرنا پڑے گا، جہاں بیوی کے جرمِ زنا کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے شوہر کو لعان کا قانون عطا فرمایاہے، اس صورت کو اختیار کیا جائے۔ قتل غیرت بہر حال قتل عمد ہے۔کہنے والا اعتراض کر سکتا ہے کہ اس طرح تو آپ NGO's کے مطالبے کو ہی تقویت دے رہی ہیں ۔مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ قتل غیرت کو قتل عمد قرار دینے کا مطالبہ اس لیے کرتی ہیں تا کہ معاشرہ سیکس فری بن جائے اور اباحیت پسندی کو فروغ حاصل ہو جب کہ ہمارا مقصد اسلامی تعلیمات کو روشناس کرانا ہے … افسوس کہ علما بھی آج سے اسی رسم ورواج کے محافظ بنے بیٹھے ہیں ۔“ (کتاب ’جدید تحریک ِنسواں اور اسلام ‘: ص462،465،475) اس موضوع پر مذکورہ تینوں موقف ناقص اور مبہم ہیں ۔ پہلے موقف میں جرائم غیرت کو عام جرائم سے زیادہ سنگین سزا دینے کے مطالبے کی کوئی بنیاد نہیں ، نیز اس کی سزا کو قتل عمد کی سزا سے بھی سنگین قرار دینا بلاوجہ ہے۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے محمد عطاء اللہ صدیقی لکھتے ہیں : ”1999ء میں عالمی سطح پر غیرت کے نام پر قتل کے خلاف تحریک چلائی گئی۔غیرت کے نام پر قتل کالائسنس اسلام بھی نہیں دیتا مگر جس طرح این جی اوز نے اس کے خلاف جارحانہ پروپیگنڈہ شروع کررکھا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا اصل مقصود پاکستانی معاشرے سے غیرت کا جنازہ نکالنا ہے، نہ کہ ’غیرت کے قتل‘ کے خلاف احتجاج کرنا۔ وہ ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے خلاف احتجاج نہیں کرتیں بلکہ خود ’غیرت کا قتل‘ ان کا مطلوب ومقصود ہے۔ یہاں یہ نشاندہی بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ انسانی