کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 27
میں پیش کردہ اپنی سفارشات میں قرار دیا : ”غیرت کے مسئلہ پر قاتلانہ واردات کو قانون کے مطابق قتل عمد قرار دیا جائے اور اس کے لئے مناسب قانون سازی کی جائے۔“ (رپورٹ، باب نمبر6) ٭ پیپلز پارٹی کی ایم این اے شیری رحمن نے قومی اسمبلی میں ’ خواتین کا تحفظ اور ان کو طاقتور بنانے کا بل 2003ء‘ پیش کرتے ہوئے یہی مطالبہ دہرایا اور اس پر مزید اضافہ کیاکہ ایسے مجرم کو سزاے موت دی جائے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کی 8 خواتین اراکین اسمبلی کے قومی اسمبلی میں پیش کردہ حالیہ بل میں بھی یہی مطالبہ دھرایا گیا ہے اور غیرت کے نام پر ہونے والے تمام جرائم کو عام تعزیرات تصور کرنے اور ان کی سنگین سزا دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ ٭ حکومت یعنی وزارتِ قانون کی طرف سے ایک مسودہ برائے آئینی ترمیم بھی اِنہی دنوں عدالت میں پیش کیا گیا ہے جس میں جرائم غیرت کو وسیع کرتے ہوئے قتل غیرت، کاروکاری اور سیاہ کاری جیسی رسوم کو اس میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایسے ہی غیرت کے جرائم کو زیادہ سے زیادہ سزا دینے اور دیگر مجرموں کو حاصل رعایت سے الگ قرار دینے کی سفارش بھی اس میں شامل ہے۔ اس قانون میں ایسی ترمیم بھی تجویز کی گئی ہے جس کی رو سے غیرت کے متعلقہ جرائم میں معافی اور صلح کی سہولت میں فریقین کا اختیار ختم ہوجائے گا۔ مذکورہ بالا موقف کاحاصل یہ ہے کہ غیرت کے نام پر کیے جانے والے قتل کو عمومی وارداتِ قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم تصور کیا جائے اور ایسے مجرم کو زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے۔ دوسراموقف اس سلسلے میں ایک مبہم موقف مسٹرجاوید احمد غامدی کے ادارۂ اشراق کا ہے۔ اشراق کے مقالہ نگار جناب طالب محسن اپنے مضمون ’غیرت کا قتل‘ میں لکھتے ہیں : ”ہمارے ہاں سیاسی نظام پر عدمِ اطمینان کی صورت بہت عام ہوتی جارہی ہے اور ہم نظام سے بالا بالا اپنے معاملات کو مرضی سے انجام دینے لگ جاتے ہیں ، اسلام نے اس روش کو انتہائی ناپسند کیا ہے۔فرمانِ نبوی ہے: (من خرج من السلطان شبرًا مات ميتة جاهلية)(بخاری:6530) ”جو نظامِ حکومت سے بالشت بھر نکلا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔“ اسلام کے دشمنوں کو ذاتی سطح پر نشانہ بنانا اور غیرت میں آکر قتل کرنا نظامِ اجتماعی سے انحراف کی مثالیں ہیں اور نبی کریم کے نزدیک عدمِ ایمان کا مظہر بھی۔ میاں بیوی کے رشتے میں جب ایسی صورت پیش آئے تو اسلامی قانون میں ان کے لیے یہ رستہ رکھا گیاہے کہ وہ لعان کا طریقہ اختیار کریں ۔ شادی ایک معاہدہ ہے اور اس معاہدے کی