کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 24
گیا ہے لیکن ایک وضاحت کو حذف کرنے کی سفارش کی گئی ہے جس میں کہا گیا تھاکہ ”قرآن وسنت کی تعلیمات سے مراد وہ تشریح ہوگی جو کوئی خاص مکتب ِفکر اپنے شخصی قانون کی حد تک درست سمجھتا ہے۔ “ بظاہر اس شق کے ذریعے مختلف مکاتب ِفکر کی فقہی آراکو قانونی تحفظ عطا کیا گیا ہے۔ اس شق کو ختم کرنے کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ کثیر تعداد والے عوام کی فقہی آرا دوسرے مسلمانوں پر قانون کی قوت سے نافذ کردی جائیں کیونکہ مسلمان صرف کتاب وسنت کے ہی پابند ہیں اور وہی تاقیامت دائمی شریعت ہیں اور مسلمانوں کے تمام مکاتب ِفکر کا صر ف کتاب وسنت پر ہی اتفاق ہوسکتا ہے ، البتہ کتاب وسنت کی تشریحات کے سلسلے میں علما وفقہا کی آرا کو نظر انداز کرکے چلنا اس مرعوبیت کے دور میں الحاد کا موجب ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف مکاتب ِ فکر کو اپنی آرا کے دائرے میں بند رکھنا بھی گروہ بندی کی راہ ہموا رکرے گا۔ اگر اسلامی شریعت کی تشریح میں حکومت ایسے علما سے مدد لے سکے جو دینی علم میں رسوخ رکھتے ہوں تو اس سے مسلمانانِ پاکستان کتاب وسنت کی وسعتوں سے زیادہ بہتر طور پر متمتع ہوسکتے ہیں ۔ ماہر علما کی مدد سے ادارۂ اجتہاد کا احیا اور کتاب وسنت کی اِنہی وسعتوں سے فائدہ اُٹھانا دور حاضر کے مسائل کا حل اور اسلامی شریعت کا حسن وامتیاز ہے۔ پسِ تحریر: محدث کا زیر ِنظر شمارہ پریس میں جارہا کہ 27/ اکتوبر کے اخبارات نے خبر دی کہ 26/اکتوبر کو قومی اسمبلی نے حکومتی بل کو کسی ترمیم کے بغیر منظور کرلیا ہے۔ اس بل کے باقاعدہ قانونی شکل اختیار کرنے میں ابھی دو مراحل باقی ہیں ۔ یعنی سینٹ اور پھر صدرِ پاکستان کی منظوری۔ اُمید ہے کہ سینٹ اس انتہائی اہم مسودہ کو منظور کرنے سے قبل اس پر تفصیلی بحث کے مواقع فراہم کرے گی اور اس کے بعد صدرِ پاکستان بھی اسلامی نظریاتی کونسل سے مشورہ کے بعد ہی اس کی نامنظوری یا پارلیمنٹ کو نظرثانی کے لئے واپس بھجوانے کا فیصلہ کریں گے۔ مذکورہ فوجداری(ترمیمی)ایکٹ 2004ء پر عوامی تحفظات کا ایک اجمالی تذکرہ روزنامہ نوائے وقت، موٴرخہ 28/ اکتوبر کے ادارتی نوٹ میں بھی ملتا ہے۔ صدر پاکستان، ارکانِ سینٹ اور قارئین کی دلچسپی کے لئے اس کے متن کو بھی ذیل میں شامل اشاعت کیا جارہا ہے : ”قومی اسمبلی نے کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل کے خلاف ترمیمی بل منگل کے روز