کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 23
اگر یہ حادثہ اتفاقیہ نہ ہو تو عام طور پر اس حادثے کی بنیادی وجہ مرد نہیں بلکہ اس گھر کی سسرالی خواتین ہی ہوتی ہیں ۔ مزید برآں چولہا بنانے والی بہت سی کمپنیاں بھی غیرمعیاری چولہے تیار کررہی ہیں جو کم قیمت ہونے کی وجہ سے بھاری تعداد میں ہر سال فروخت ہوتے ہیں ۔ ایسے حالات میں چولہا پھٹنے کے واقعات میں چولہا بنانے والی کمپنیوں کو بھی یکسر بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان معروضات کی روشنی میں شق نمبر 6 پر مزید غوروخوض کرنے اور اسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی کے پیش کردہ مسودہ میں ہمہ گیر خواندگی کے زیر عنوان بہت اچھی تجاویز دی گئی ہیں ۔ البتہ اس میں دینی تعلیم کی اہمیت کویکسر نظر انداز کردیا گیا ہے جو دراصل انسان کو انسانیت اور دنیا میں آنے کا مقصد سکھاتی ہے۔ ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے قوم کے نونہالوں کی جہاں دیگر تعلیمی ضروریات کی کفالت حکومت کا فرض ہے وہاں اسے ان کی دینی تعلیم وتربیت کا بھی فکر اور احساس ہونا چاہئے اور اس تمامتر ذمہ داری کو خالصتاً نجی مدارس کے ذمہ کرنا بھی اپنے فرائض سے غفلت کے مترادف ہے بالخصوص سکولوں میں اسلامی تعلیم میں بھی معیار بہتر ہونے کی بہت ضرورت ہے اور موجودہ اسلامیات کا نصاب اس نوعیت کے قومی تقاضے پورا نہیں کررہا۔ حکومت کو اس بارے میں بھی قانون سازی کرنا چاہئے۔
پیپلزپارٹی پیٹریاٹس کے پیش کردہ بل کی دفعہ (7) ذیلی دفعہ (2) میں کہا گیا ہے کہ
”نکاح خواں کا فرض ہوگا وہ دلہن کو طلاق کا حق اور مہر کی رقم جو خاوند کی دولت کے مطابق ہو، کے ضمن میں بھی وضاحت کرے۔“
٭ ان دونوں مسودات کے مقابلے میں اسلامی حلقوں کی جانب سے پیش کیا جانے والا مسودۂ قانون اپنے مزاج کے اعتبار سے بالکل جداگانہ ہے۔ اس مسودے میں حدود قوانین کو ختم کرنے کے بجائے تمام رائج الوقت قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی بات کی گئی ہے اور آئین کے آرٹیکل 2/اے کو دستور کے دیگر آرٹیکلز سے ممتاز اور ممیز کرنے کے لئے آئینی ترامیم تجویز کی گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ وفاقی شرعی عدالت کے ججوں کو حکومت کے دباوٴ سے نکالنے کے اقدامات بھی تجویز کئے گئے ہیں ۔
اس مسودہ میں آئین کے آرٹیکل 227 کو حذف کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے اور زیر بحث مسودے میں آرٹیکل 227 کے زیادہ تر حصے کو ایک نئے آرٹیکل 2(بی) کی صورت میں برقرار رکھا