کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 22
جرمانہ تک ہو۔ لیکن اس شق میں ان شوہروں کے تحفظ کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے جو اپنی بیویوں یا سسرالی رشتہ داروں کی طرف سے ذ ہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بن سکتے ہوں ۔ گھریلو تشدد کو یکطرفہ اور غیر مشروط طور پر قابل تعزیر ٹھہرانابھی بحث کے بہت سے دروازے کھولتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بھی اس مسئلے اور صورتِ حال کاتجزیہ ضروری ہے۔ مسودۂ قانون میں گھریلو تشدد کے الفاظ کو اگر’بلا جواز گھریلو تشدد‘ کے الفاظ سے بدل دیا جائے تو اس قانون کو عوامی سطح پر زیادہ قابل قبول بنایا جاسکتا ہے۔
ایسے ہی شق نمبر 5 میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ گھریلو تشدد اور قتل غیرت جیسے جرائم کی سماعت دوسرے مماثل جرائم کی طرح ماتحت عدالت نہ کرے بلکہ ان مقدمات کی سماعت ہائیکورٹ کا جج کرے۔ اگر اس تجویز کو قانونی درجہ حاصل ہوگیا تو صوبے بھر کی خواتین کو دادرسی کے لئے دور دراز کا سفر کرکے ہائی کورٹ کے دروازے پر دستک کے لئے آنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر صوبہ پنجاب میں ایسے تمام مقدمات صرف راولپنڈی، لاہور، ملتان اور بھاولپور میں سنے جاسکیں گے۔ مزید یہ کہ عورتوں کے مقدمات کو ہائی کورٹ کے لئے مخصوص کرنا اور اسی نوعیت کے اس مقدمات جن میں مرد مدعی ہوں کو ماتحت عدالتوں تک محدود رکھنا، بجائے خود وطن عزیز کی آدھی آبادی سے غیر مساوی سلوک کے مترادف ہوگا۔
پیپلزپارٹی پیٹریاٹس کی جانب سے پیش کردہ بل کی شق نمبر6 بھی بحث طلب ہے۔ کسی بھی خانہ دار خاتون کو آگ لگا کر ہلاک کرنا کسی طرح سے بھی قابل معافی جرم نہیں ہے۔ عام قتل عمد سے بڑھ کر اس عمل میں ایک وحشیانہ اور سنگدلانہ تشدد بھی شامل ہوتا ہے۔ اس لئے اس جرم کی جتنی بھی مذمت کی جائے، وہ کم ہے اور جتنی بھی زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے وہ مناسب ہے۔ جبکہ زیر بحث بل کی شق نمبر 6 میں کہا گیا ہے کہ چولہا پھٹنے کے تمام کیسوں میں عورت کا شوہر یا اس کی موجودگی میں واردات والے گھر کے مکینوں میں سے بزرگ ترین مرد کو قتل وغیرہ کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ ترمیم کی اس تجویز سے کوئی بھی ذی ہوش اتفاق نہیں کرسکتا۔
اس ترمیم کو قانون کا درجہ دینے سے بہت سے بے گناہ معمر مرد شہریوں کو ناقابل بیان مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے اور یہ بات بھی کوئی راز نہیں ہے کہ جو خانہ دار خواتین چولہے پھٹنے سے زخمی یا ہلاک ہوتی ہیں یا گھر میں کپڑوں کو آگ لگ جانے کے سبب جان بحق ہوتی ہیں ،