کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 21
خلاف متحرک کریں ۔ پیپلزپارٹی پیٹریاٹس کے پیش کردہ مسودہ قانون کی مجوزہ دفعہ 11 میں حدود آرڈیننس کو منسوخ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ راقم الحروف کے علم کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل جو قوانین کی جانچ پرکھ کا ایک آئینی ادارہ ہے، حدود قوانین کی ایک سے زیادہ مرتبہ جانچ کرچکا ہے اور اپنی رپورٹوں میں لکھ چکا ہے کہ یہ قانون بنیادی طور پر قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہے اور چند معمولی ترامیم اسے مزید بہتر اور موٴثر بناسکتی ہیں ۔ ایک قومی اور آئینی ادارے کی اس سوچی سمجھی رائے کی موجودگی میں محض حلقوں کا یہ کہنا کہ یہ قوانین مکمل طور پر قرآن وسنت سے متصادم ہیں ، بادیٴ النظر میں بلا جواز دکھائی دیتا ہے۔ پھر بھی ہماری تجویز ہے کہ اتمامِ حجت کے لئے معترض حلقوں کے اعتراضات کو نکتہ وار ترتیب دے کر انہیں ایک مرتبہ پھر اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے رکھا جائے اور علماے کرام کے ساتھ ساتھ جدید اسلامی مفکرین کوبھی ان اعتراضات پر اپنی رائے دینے کی دعوت دی جائے اور پھر ان اعتراضات پرایک اعلیٰ سطحی قومی مباحثہ کے ذریعے تمام امکانات کا تجزیہ کرنے کے بعد تمام مواد معزز ارکانِ اسمبلی کے سامنے رکھا جائے تاکہ پیپلزپارٹی کے مجوزہ مسودے پربحث کے دوران ہر زاویے سے بات ہوسکے۔ اس مسودے کی شق نمبر 3 میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اورصوبائی حکومتیں تمام شعبوں میں عورتوں کی مساوی شرکت کو یقینی بنائیں گی۔ اس مسودے میں خواتین کی مساوی شرکت کے حوالے سے تضاد پایا جاتا ہے۔ شق نمبر 3 کے برعکس شق نمبر 9 میں تجویز کیا گیا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل، منصوبہ بندی کمیشن، پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز، خود مختار اداروں اور اعلیٰ تعلیم کمیشن میں ایک تہائی نشستیں خواتین کے لئے مختص کی جائیں ۔ اسی طرح شق نمبر 3 کی ذیلی دفعہ ’3‘ میں تجویز کیا گیا ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور تمام صوبائی پبلک سروس کمیشن یکم جنوری 2005ء سے کل ملازمتوں کا ایک تہائی خواتین کوتفویض کریں ۔ زیر بحث مسودے کی شق نمبر 5 گھریلو تشدد اور عزت کے نام پر قتل سے متعلق ہے۔ اس میں بیان کردہ تمام تفصیلات یہ بیان کرتی ہیں کہ خواتین خاص کر بیوی پر شوہر اور اس کے رشتہ داروں کی طرف سے تشدد کو قابل تعزیر قرار دیا جائے جوکہ تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے