کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 20
اگر وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ اطلاع غلط یا بے بنیاد تھی تو وہ دیگر اختیارات کے علاوہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 157 کے تحت متعلقہ مجسٹریٹ کو تحریری رپورٹ بھیجوا کر مزید تفتیش کو روک سکتا ہے اور حتمی رائے قائم کرنے کے بعد دفعہ 182 کے تحت جھوٹا مقدمہ درج کروانے پر، اطلاع دہندہ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اسے عدالت سے باقاعدہ سزا بھی دلوا سکتا ہے۔
اس طے شدہ قانونی طریقے سے انحراف کرکے توہین رسالت کے معاملے میں تفتیش کو ایس ایچ او کے بجائے ایس پی کے حوالے کرنا ایک تو رائج الوقت عام تقاضوں سے ہٹ کر ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کا ہر شخص جانتا ہے کہ ایک وسیع و عریض سرکل میں صرف ایک ایس پی تعینات ہوتا ہے۔ بے شمار دیگر انتظامی اُمور اس کے ذمہ ہوتے ہیں ۔ عام آدمی کا اپنے علاقے کے تھانہ تک پہنچنا دشوار ہوتا ہے۔ دوسرے قصبات اور علاقوں سے سفر کرکے ایس پی صاحب کے دفتر میں حاضر ہونا اور پھر مسلسل شامل تفتیش ہونے کے مراحل سے گزرنا عملی طور پر ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس جرم کے ارتکاب کی اطلاعات کا اندراج درپیش مشکلات کی وجہ سے از خود کم ہوجائے گا اور جو افراد ایس پی تک رسائی کرکے اطلاع فراہم بھی کردیں گے۔ اُنہیں ایک مجرم کی طرح تفتیش کے مراحل سے گزرنا پڑے گا اور گواہوں کے سفروحضر کے اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔یہ صورتِ حال دیکھ کر یقین ہونے لگتا ہے کہ توہین رسالت کے متعلق مقدمات کے اندراج اور مقدمات پر کارروائی کو عملی طور پر ناممکن بنایا جارہا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قانون توہین رسالت کی مخالفت کرنے والی این جی اوز دیگر خود ساختہ وجوہات کے علاوہ یہ اعتراض بھی بہت شدومد سے کرتی ہیں کہ قانون توہین رسالت ایک امتیازی قانون ہے۔ ترمیمی قانون کے ذریعے اس کا طریقہ تفتیش ضابطہ فوجداری میں بیان کردہ عام طریقے سے الگ کرنا بجائے خود ایک امتیازی اقدام ہے۔ جس کے نتیجے میں لازمی طور پر فریقین کو مشکلات کا سامنا کرنے پڑے گا۔ لہٰذا جدید این جی اوز کے اپنے نکتہ نظر کی روشنی میں بھی امتیازی خصوصیت کے باوصف یہ ترمیم قابل استرداد ہے۔ قانونی ماہرین اور اسلامی مفکرین کا فرض ہے کہ وہ اس سلسلے میں عوام الناس میں آگہی کی ایک تحریک چلائیں اور معزز ارکانِ اسمبلی کو درست سمت میں رہنمائی مہیا کرکے انہیں اس تبدیلی کے