کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 19
والی اطلاعات سے ثابت ہوتا ہے کہ خود حکومتی ارکان اسمبلی کا ایک مضبوط گروپ قتل غیرت کے مسئلے پر سرکاری بل کے حوالے سے تحفظات رکھتا ہے۔ اگرچہ حکومتی پارٹی مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اس بل کی حمایت میں سرگرم ہیں ۔ لیکن وفاقی وزیر قانون چوہدری وصی ظفر، وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر شیرافگن، پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین رائے منصب علی، ملک اللہ یار ایم این اے، سردار طفیل ایم این اے اور ثناء اللہ مستی خیل ایم این اے کا کہنا ہے کہ یہ بل پاکستانی معاشرت کے اُصولوں سے متصادم ہے۔ اس کے نفاذ سے صلح کا دروازہ بند ہوجائے گا جبکہ بدکاری کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اسلامی فکر کے حامل دانشوروں اور علماے کرام پر یہ دینی فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اس مہلت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے لفظ غیرت کی اسلامی تعریف متعین کریں ۔ اصل اور رسمی غیرت میں فرق قائم کریں اور ارکانِ اسمبلی کو واضح دلائل کے ساتھ مواد فراہم کریں ۔ تاکہ جب یہ بل ایوان میں زیر بحث آئے تو ارکانِ اسمبلی اس ضمن میں دینی نقطہ نظر سے کماحقہ طور پر آگاہ ہوں اور ہر ہر شق کے متن اور مقاصد پر تفصیلی بحث کے بعد غیرت کے حوالے سے کی جانے والی مجوزہ ترامیم کو اسلامی ضوابط کے دائرے میں رکھنے کی ٹھوس کوشش کرسکیں ۔ اسی خلا کو پورا کرنے کے لئے محدث کے اسی شمارے میں قتل غیرت کی سزا پربالتفصیل شرعی نکتہ نظر سے بحث کی گئی ہے، جس میں مذکورہ بالا سوالات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ شائقین کے لئے اس کا مطالعہ افادیت سے خالی نہ ہوگا۔ایسے مرحلہ پر جب حکومت اور قانونی حلقوں کو یہ مسئلہ درپیش ہے، اس بحث سے بطورِ خاص استفادہ کیا جانا چاہئے۔ توہین رسالت قانون کو بے اثر بنانے کی کوشش ترمیمی بل کی دفعہ 9 میں بظاہر تو ایف آئی آر کی تفتیش کے طریقہٴ کار میں تبدیلی تجویز کی گئی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ تبدیلی دیت و قصاص کے علاوہ قانون توہین رسالت کے تحت درج مقدمات میں بھی پیش رفت کو سست بلکہ بے اثر بنانے کے مترادف ہے۔ فوجداری قانون کا یہ ایک مسلمہ اُصول ہے کہ جب بھی کسی تھانہ کے انچارج پولیس آفیسر کو کسی قابل دست اندازی پولیس جرم کی اطلاع موصول ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس اطلاع کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کرے اور اس کے بعد اپنی تفتیش کا آغاز کرے۔ تفتیش کے بعد