کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 18
یہاں یہ سوال قابل توجہ ہے کہ خاندانی عزت و وقار کی بحالی اور غیرت کے نام پر قتل اور دیگر پُرتشدد اقدامات پر اسلامی فقہ کا نقطہ نظر کیا ہے۔ یا پھر قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلے پر کیا رہنمائی سامنے آتی ہے اور کیا حکومت کی تجویز کردہ ترمیمات قرآن و سنت کے ثابت شدہ اُصولوں (یا رعایتوں ، اگر کوئی ہیں ) سے متصادم تو نہیں ہیں ۔
دیت و قصاص پر قرآن سے متصادم قانون سازی
اس سلسلے میں دفعہ 338 کی ذیلی دفعہ ایف کا معاملہ بہت حساس نوعیت کا ہے۔ اس دفعہ میں ترمیم اور تبدیلی کے ذریعے عدالتوں سے راضی نامے کی منظوری اور مدعی فریق سے صلح کا حق چھین لیا گیا ہے جو کہ قرآنی نصوص سے سراسر متصادم ہے۔ قرآن فریقین میں صلح اور راضی نامے کی صورت میں قصاص کو ترک کرکے دیت وصول کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسی طرح اگر قاتل والد یا ولی ہو تو اسلامی قانون کی روشنی میں اس پر بھی قصاص لاگو نہیں ہوتا۔ خود پاکستان کی سپریم کورٹ 1999ء میں خلیل الزمان کیس میں حتمی طور پر یہ قرار دے چکی ہے کہ اگر والد، اپنے بیٹے، بیٹی، پوتے یا پوتی کا قتل کردے تو وہ قصاص کی سزا سے مستثنیٰ ہوگا۔ (البتہ اسے اس جرم پر تعزیر کی زیادہ سے زیادہ سزا دی جاسکتی ہے) اس امر پر کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی کہ قصاص و دیت سے متعلق دفعات 306 تا 311 میں ترامیم کے ذریعے قرآنی احکامات سے صرفِ نظر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ سورۂ بقرہ کی آیت 178 واضح طور پر جہاں قتل عمد پر بطور قصاص سزائے موت کا حکم دیا گیا ہے وہیں اس جرم پر راضی نامے اور سزا میں معافی کی نہ صرف رعایت دی گئی ہے بلکہ اسے باعث ِ رحمت بھی قرار دیا گیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کے علاوہ مذکورہ بالا ترامیم خود پاکستان کے آئین سے بھی متصادم ہیں ۔ آئین کی دفعہ 227 میں واضح طور پر حکومت کو پابند کردیا گیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف کسی طرح قانون سازی نہ کرے۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 2’اے‘ میں حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالے۔
دوسرے دو مسوداتِ قانون کی طرح حکومت کے پیش کردہ بل کا بھی روشن پہلو یہ ہے کہ اس بل پر ابھی قومی اسمبلی اور سینٹ میں بحث ہونا باقی ہے۔ معتبر ذرائع سے حاصل ہونے