کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 17
(2)وفاقی شرعی عدالت پاکستان کے جج کو وہی تنخواہ، الاوٴنس اور پنشن دی جائے گی جس کاحقدار ہائی کورٹ کے ایک مستقل جج کو گردانا جاتا ہے۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 203(ایف) کی کلاز (3) کی ذیلی کلاز (بی) میں بھی حسب ذیل ترمیم تجویز کی گئی ہے جسے مختصر الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے : ”صدرِ پاکستان دو علما کو سپریم کورٹ کامستقل جج مقرر کریں گے۔ان کا انتخاب وفاقی شرعی عدالت کے حاضر ججوں میں سے کیا جائے گا یا پھر علما کے ایک پینل میں سے انتخاب کیا جائے گا جو کہ صدرِ پاکستان چیف جسٹس آف پاکستان کے مشورے سے تشکیل دیں گے۔ ان علما ججوں کو وہی تنخواہ اور مراعات حاصل ہوں گی جو سپریم کورٹ کے ایک جج کو حاصل ہوتی ہیں ۔“ وفاقی شرعی عدالت کے ججوں کی ملازمت کو تحفظ دینے اور بغیر دباوٴ کے فیصلے کرنے کا ماحول پیدا کرنے کے لئے مجوزہ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 203(ایف) کی ذیلی دفعہ 4 کو دستور سے حذف کردیا جائے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے عرض ہے کہ ذیلی دفعہ 4 میں کہا گیا ہے کہ شرعی عدالت کے یہ جج اس مدت تک کام کرسکیں گے جس کا تعین صدر پاکستان اپنی صوابدید کے مطابق کرے گا۔ تجزیہ وتبصرہ اس مرحلے پر حکومت، پیپلزپارٹی پیٹریاٹس اور اسلامی حلقوں کی جانب سے تجویز کردہ مذکورہ بالا تینوں ترمیمی بلوں کا ایک مختصر تجزیاتی جائزہ بے جا نہ ہوگا۔ حکومت کی جانب سے ترتیب پانے والے بل میں حدود قوانین اور قانونِ توہین رسالت کو برقرار رکھنے کا عزم موجود ہے اور انہیں یکسر ختم کرنے کی کوئی بات نہیں کی گئی بلکہ رائج الوقت قوانین میں ایسی تبدیلیاں اور ترمیمات تجویز کی گئی ہیں جن کے نافذ العمل ہونے کے بعد ملک میں غلط طور پر رائج کاروکاری، سیاہ کاری جیسی رسوم کی حوصلہ شکنی ہوسکے اور غیرت کے نام پر قتل اور دیگر جرائم کا ارتکاب کرنے والے عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹا جاسکے۔ اس مقصد کے لئے اس بل میں غیرت سے متعلقہ جرائم کی انتہائی سزا کو واضح طور پر قتل عمد کے زمرے میں شامل کردیا گیا ہے اور دیگر متعلقہ جرائم پر یا تو تعزیری سزاوٴں میں اضافہ کردیا گیا ہے یا پھر سزاوٴں کی کم سے کم حد مقرر کردی گئی ہے۔ تاکہ عدالت اگر چاہے بھی تو ایک خاص حد سے کم سزا نہ سنا سکے۔