کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 16
طرح غیر مسلم پاکستانیوں کے شخصی قوانین کے احترام اور ان کی مذہبی آزادی کی جو ضمانت آرٹیکل 227 میں بیان کی گئی تھی اسے قدرے وسعت کے ساتھ نئی مجوزھ ترمیم میں برقرار رکھا گیا ہے۔ ٭ اس مجوزہ بل میں آئین کے آرٹیکل 203 (بی)کی ذیلی کلاز (سی) میں بھی ایک ترمیم تجویز کی گئی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 203(بی) وفاقی شرعی عدالت کی تشکیل اور طریقہ کار سے متعلق ہے۔ کلاز (سی) کا مفہوم حسب ِذیل ہے : (سی) ’قانون‘ سے مراد وہ رسوم اور طریقے ہیں جنہیں قانونی طاقت حاصل ہے۔ لیکن مسلمانوں کا شخصی قانون، کسی عدالت یا ٹربیونل کا طریقہ کار اور اس باب کے نفاذ سے آئندہ دس سال تک کوئی مالی قانون،ٹیکسوں کے نفاذ اور وصولی کے قانون یا بنکنگ انشورنس پریکٹس اور طریقہ ہائے اس میں شامل متصور نہیں ہوں گے۔“ مجوزہ بل میں تجویز کی گئی ترمیم کے مطابق مطالبہ کیا گیا ہے کہ ذیلی آرٹیکل ’سی‘ میں سے عبارت کاوہ حصہ جو مندرجہ ذیل الفاظ و مفہوم کا حامل ہے، حذف کردیا جائے : ”اور اس باب کے نفاذ سے آئندہ دس سال تک کوئی مالی قانون، ٹیکسوں کے نفاذ اور وصولی کے قانون یا بنکنگ انشورنس پریکٹس اور طریقہ ہائے شامل متصور نہیں ہوں گے۔“ اس عبارت کو حذف کرنے کا جواز شاید یہ ہے کہ سود پر مبنی مالی قوانین اور بنک ضوابط کو شروع میں چار سال کے لئے تحفظ دیا گیاتھا۔ بعد ازاں 1983ء میں صدارتی حکم نمبر 7 کے ذریعے یہ مدت کم کرکے تین سال کردی گئی۔ اس کے بعد 1984ء میں صدارتی حکم نمبر 2 کے تحت تین سال کے الفاظ کو ’پانچ سال‘ سے بدل دیا گیا۔ لیکن پھر 1985ء میں صدارتی حکم نمبر 14 کے تحت یہ مدت پانچ سال سے بڑھا کر دس سال کردی گئی اور اب یہ دس سال گزرے ہوئے چودہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے ۔ یعنی آئین کی حد تک حکومت اس امر کی پابند ہوچکی ہے کہ تمام مالی قوانین، بنک کاری سے متعلق ضوابط اور طریقہ کار کے علاوہ ٹیکسوں کے نفاذ اور وصولی کے طریقوں کو بھی قرآن اور سنت کے مطابق بنائے۔ ٭ اسلامی حلقوں کی جانب سے پیش کردہ آئین کے ترمیمی مجوزہ بل میں وفاقی شرعی عدالت کی حیثیت اور ججوں کے مرتبے کو مزید مستحکم کرنے کے لئے اقدامات بھی تجویز کئے گئے ہیں اور آئین کے آرٹیکل 203 (سی سی) کی ذیلی کلاز (2) میں الفاظ کی ترتیب میں حسب ِذیل ترمیم کی سفارش کی گئی ہے۔