کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 141
(2) گھر کی ضرورت کے مطابق سلائی کٹائی اور بیکار چیزوں کو کارآمد بنانا، پھٹے کپڑوں کو پیوند لگا کر دوبارہ قابل استعمال بنانا۔
(3) موسم کے مطابق ستر کی حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے لباس تیار کرنا، پھر لباس پہننے کا سلیقہ بھی ہو، تاکہ صفائی ستھرائی سے کم قیمت لباس کو بھی دیدہ زیب بنا سکے۔
(4) گھر کی صفائی ستھرائی اور آرائش میں سلیقہ اور ترتیب کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ کم قیمت مگر سلیقہ سے رکھا ہوا سامان بیش قیمت، مگر بے ترتیبی سے رکھے گئے سامان کے مقابلے میں زیادہ دیدہ زیب اور خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔ جبکہ عورت کابے سلیقہ اور پھوہڑ ہونا پورے گھر کو منتشر اور خراب کردیتا ہے۔
(5) گھر کا بجٹ تیا رکرنا: اپنی چادر کے مطابق پاوٴں پھیلانا تاکہ کسی سے ادھار مانگنے کی نوبت پیش نہ آئے۔ ضروری اور اہم چیزوں کو ترجیح دینا، تعیش اور سجاوٹ کی اشیا کو نظر انداز کرنا ضروری ہے۔
٭ نبی کریم نے طلب ِعلم کو مسلمان مردوں پر فرض قرار دیا ہے جس میں مسلمان عورتیں بالتَّبع ہی شامل ہیں ۔ جس علم سیکھنے کا اُنہیں ڈائریکٹ حکم دیا گیا ہے وہ گھریلو اُمور کی تعلیم ہے۔چنانچہ یہ امر ملحوظ رہنا چاہئے کہ جس طرح مسلمان مرد عورت کا دائرۂ حیات مختلف ہے، اسی طرح ان کی تعلیم کے مقاصد اور نصاب کی تفصیلات بھی جداگانہ ہیں ۔ایک جیسے تعلیمی مراحل طے کرکے لازماً ایک جیسی ملازمت اور آئندہ زندگی کی مصروفیات اور رجحانات رو بہ عمل آتے ہیں جس سے خانگی زندگی متاثر ہونا لازمی امر ہے۔یاد رہے کہ مسلم معاشروں کا طبقہ نسواں ہمیشہ سے علم(دینی یا دنیاوی) میں اس طرح ممتاز نہیں رہا جیسا کہ مرد حضرات۔ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم دور میں بھی خواتین کی تعلیم کی حکمت خانگی معاملات سے آگاہی اورفرائض زوجیت سے واقفیت تک محدود رہی ہے اور اسی تعلیم سیکھنے کا اُنہیں ڈائریکٹ حکم دیا گیا ہے۔یوں تو مردو زن کے نصابِ تعلیم میں حد ِفاصل طے کرنا ماہرین تعلیم کاکام ہے البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ایک عورت کو اسلامی عقائد اور گھریلو اُمور کی تمامتر تعلیم دینا توعین مقصودہے، البتہ کارزارِ حیات اور کائنات کی عقدہ کشائیوں کے میدان اور اس سے وابستہ علوم مرد حضرات کیلئے مخصوص رہنے چاہئیں ۔دینی مدارس میں اسی غرض سے مردوزَن کے نصاب میں فرق رہا ہے، اور اس فرق کو برقرار رکھنے کی کوششیں بھی جاری ہیں ۔البتہ بعض خواتین جو غیرمعمولی استعداد رکھتی ہوں ، وہ خواتین سے متعلقہ میدانوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اپنے طبقہ کی معلمی یا اسکی خدمت کے فریضہ سے عہدہ برا ہوسکتی ہیں یا کم از کم آزاد خیال خواتین کے اعتراضات و اشکالات کی موزوں وضاحت کرسکتی ہیں ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ اوربعض ادوار کی نامور اہل علم خواتین کا تعلق ایسی ہی غیرمعمولی استعداد والی خواتین سے ہے۔ ( حسن مدنی)