کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 138
ہے۔ لہٰذا نتائج بھی مختلف ہونے لازمی ہیں ۔اس وقت مغربی تعلیم یافتہ طبقے میں صرف مال زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کا ایک جنون طاری ہے۔ اعلیٰ گھر، بیش قیمت فرنیچر، نئے ماڈل کی گاڑی، سٹیٹس کا حصول، غرض مادّی مفادات کی دوڑ لگی ہے۔ حلال و حرام سے بے نیاز، رشوت، سود، کرپشن کا بازار گرم ہے۔ نظروں میں پیرس، لندن، واشنگٹن اور نیویارک سمائے ہوئے ہیں ۔ بچوں کو دھڑا دھڑ وہاں تعلیم کے حصول کے نام پر بھیجا جارہا ہے۔ دوسری طرف غیروں کے رسوم رواج بڑی تیزی سے اپنائے جارہے ہیں ۔ کھانے پینے، چلنے پھرنے، ملنے ملانے کے وہی مغربی انداز ہیں ۔ پتنگ بازی اور ویلنٹائن ڈے جیسی بے ہودہ رسومات کو ہماری ثقافت کا حصہ بنایا جارہا ہے جبکہ اسلامی شعائر تضحیک اور طعن و تشنیع کا نشانہ خود مسلمانوں کے ہاتھوں بن رہے ہیں ۔ کہیں ایک غیر مسلم اور ایک مسلمان طالبہ کھڑی ہوں تو دونوں کا لباس اور گفتگو کا انداز بالکل یکساں ہوگا۔ یہ پہچاننا مشکل ہے کہ ان میں سے کوئی مسلمان بھی ہے یا نہیں ؟ آخر ایسا کیوں نہ ہو جب دینی تعلیم کا کوئی بندوبست نہ ہو، تعلیمی ادارے یہی ماحول سکھائیں ۔ بچے ٹی وی کی دھنوں پر سوئیں اور ٹی وی کی آغوش میں آنکھیں کھولیں ۔ گھر میں کوئی ان کو نماز یا قرآن پڑھتا نظر نہ آئے، کوئی اسلام کے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا، اور ثواب کا درس دینے والا نہ ہو تو پھر یہ نتیجہ نکلنا لازمی ہے۔ تعلیم نسواں کا مقصد تعلیم نسواں کی اسلام نے بہت تاکید کی ہے اور مغربی تہذیب بھی تعلیم نسواں پر بڑا زور دیتی ہے مگر دونوں کے مقاصد میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ مقاصد مختلف ہونے کی بنا پر دونوں تعلیموں کی نوعیت و کیفیت بھی جداگانہ ہے۔ تعلیم نسواں سے متعلق اسلام کے مقاصد صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک اہم حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو! تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور اس سے (روزِقیامت) اپنی اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔ ایک مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے۔ اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران ہے، اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا۔ غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے وہ اس کے بارے میں جواب دہ