کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 137
گھمبیر صورت حال ہے۔ دراصل مغرب کی دی ہوئی مخلوط تعلیم کے یہ نتائج تو نکلنے ہی ہیں ۔ جب عورتیں مردوں والا نصاب مردوں کے ماحول میں پڑھتی ہیں تو ہر وقت کلاس روم میں مسابقت کی فضا برقرار رہتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ایک تو وہ مساواتِ مرد و زن کا سبق سیکھتے رہتے ہیں ۔ خواتین کی نسوانیت رخصت ہونے لگتی ہے۔ زنانہ ذمہ داریاں ان کو حقیر محسوس ہونے لگتی ہیں اور صرف مردانہ کام اور ذمہ داریاں انجام دینے کی خواہش ان میں انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ مگر فطرت کے داعیات تو ہر صورت موجود رہتے ہیں جو ہر وقت سر اُٹھاتے رہتے ہیں ۔ چنانچہ اس مخلوط ماحول میں ہر وقت ہوس رانی کی آگ لگی رہتی ہے اور عشق و محبت کے سینکڑوں واقعات روزانہ دہرائے جاتے ہیں ۔
مغربی تعلیم کا مقصد
اہل مغرب کے پیش نظرچونکہ ہر کام کا مقصد ومنشا مادّی اغراض ہوتی ہیں ، لہٰذا مغرب میں تعلیم دینے کا مقصد محض اور محض مادّی ہوتا ہے۔ وہ انسان کو صرف معاش کمانے اور خواہشات کی تسکین کا مقصد دیتا ہے۔ لہٰذا وہ معاوضے کو بھی تن +خواہ (یعنی جسم کی خواہش اور ضرورت) قرا ردیتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں میں بھی مغربی تعلیم بیش قیمت ملازمتوں کے حصول کے پردے میں دی گئی۔ پہلے ان پر کاری وار کرکے ان کے معاش کے دروازے بند کئے گئے۔ پھر اپنی تعلیم کے ذریعے ان کو ملازمتوں کا فریب دیا گیا۔
آج کل گلوبلائزیشن کا دور ہے۔ امریکہ تمام دنیا سے اپنے معاشی فوائد سمیٹنا چاہتا ہے، اس کامنشا یہ ہے کہ WTO ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تحت جب وہ مسلم ممالک میں داخل ہوں وہاں اسے اپنی مصنوعات کی خاطر سستی لیبر مل سکے۔ وہ اسی صورت میں ممکن ہے جب خواتین گھروں سے باہر ملازمتوں کے حصول کے لئے موجود ہوں ۔ اگر عورتیں پردہ دار اور گھروں میں بیٹھنے والی ہوں تو ان کے مفادات پورے نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ وہ اپنے معاشی مفاد کی خاطربھی عورتوں کو گھروں سے باہر نکالنا چاہتے ہیں ۔
اسی چیز کو علامہ اکبر الہ آبادی نے کتنی خوبصورتی سے یوں بیان کیا ہے
مذہب چھوڑو، ملت چھوڑو، صورت بدلو، عمر گنواوٴ
صرف کلرکی کی اُمید اور اتنی مصیبت توبہ ! توبہ!
گویا اہل مغرب کا تعلیم نسواں کا مقصد بھی اسلام کے مقصد سے یکسر متصادم اور مختلف