کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 136
پر طعن کرتے رہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کیا یہی اہل مغرب کا تعمیر قوم کا تصور ہے کہ عورت اپنے بنیادی فرائض اور خانگی اُمور کو چھوڑ کر کمانے کے لئے گھر سے باہر نکل آئے اور دوسری طرف گھر میں ماں بچے، شوہر اور بیوی میں کشمکش شروع ہوجائے۔ بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کیا یہی ہے فرنگی معاشرے کا کمال مرد بے کار و زن تہی آغوش مغرب کی اس جارحانہ یلغار کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم ممالک کی خواتین دوراہے پر کھڑی ہیں ۔ کچھ تو وہ ہیں جو تیز ی سے یہ مغربی اثرات قبول کرکے برقع، پردہ بلکہ دوپٹہ کی قید سے بھی آزاد ہوچکی ہیں ۔ وہ بن سنور کر اس طرح عریاں انداز میں تعلیمی اداروں میں پڑھنے اور پڑھانے کے لئے جاتی ہیں ،گویا ابھی ابھی کوئی دلہن بیوٹی پارلر سے آرہی ہو۔ سادگی اور قناعت رخصت ہوتی جارہی ہے۔ کپڑے، زیور اور میک اَپ کے سامان پر خواتین کے بے شمار اِخراجات ہورہے ہیں ۔ وہ ساتھ ساتھ بے پردگی پھیلانے کے لئے باقاعدہ مبلغ کا کام بھی کرتی جاتی ہیں ۔ وہ قرآن و حدیث کے صریح احکام کی خلاف ورزی نہ صرف خود کرتی ہیں اور پھر ان کو فخر سے بیان کرتی ہیں بلکہ حجابِ شرعی کی پابندی کرنے والی خواتین کو لعنت وملامت کرتی رہتی ہیں ۔ اس طرح ان کوبھی غیرتِ ایمانی سے بے گانہ اور اطاعت ِالٰہی کی حدود سے خارج کروانے کی مہم جاری رکھتی ہیں ۔ این جی اوز نے تو نوخیز طالبات کو ’عشق بازانہ نکاح‘ یعنی لو میرج کرنے کی اتنی کثرت سے ترغیب دلائی ہے کہ یونیورسٹیاں اور مخلوط تعلیمی ادارے اس کی وقتاً فوقتاً مثالیں پیش کرتے رہتے ہیں ۔ ایک بچی نے بڑی معصومیت سے اپنے کلاس فیلو کے ساتھ نکاح کرنے کا پروگرام جب اپنی ایک سہیلی کو بتایا تو اس دین دار سہیلی نے اس کو اس کے خراب انجام سے ڈرانے کی کوشش کی تو آگے سے نکاح کا ارادہ رکھنے والی طالبہ نے جواب دیا ۔ لو، اس میں ایسی کون سی مشکل بات ہے۔ دن بھر ہم گھوم پھر لیا کریں گے، پھر وقت ِمقررہ پر میں گھر چلی جایا کروں گی والدین کو پتہ ہی نہیں چلے گا لہٰذا مجھے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ یہ واقعہ مجھے پھر اس کی سہیلی نے بتایا ۔ ہم نے اس کو سمجھانے بجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ اپنے ارادے کو پورا کرنے پر مصر رہی۔ بات اس سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ گینگ ریپ،یعنی اجتماعی آبرو ریزی کے بیشتر واقعات اب پیش آنے لگے ہیں ۔یہ کتنی