کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 134
دوسری طرف مغربی معاشرے میں ذمہ دارانہ عہدوں پر عورتوں کو آج بھی تعینات نہیں کیا جاتا۔ تیسری طرف عورتوں کی تنخواہیں آج بھی مردوں کے مقابلے میں کم ہیں ۔ یہ ہے اس مغربی تعلیم نسواں کا اثر کہ اس نے مغربی معاشرہ کو ہر طرح سے نقصان ہی پہنچایا ہے اور عورت بالکل شتر بے مہار ہوگئی ہے۔ جو سر عام جنسی ورکر کے طور پر پیسہ کمانے میں مصروف ہے۔
مغرب کا اصرار
آج مغربی تہذیب دنیا میں بالادست ہے۔ اس لئے اہل مغرب مختلف حیلوں سے اسی مغربی بے خدا تعلیم اور ملحدانہ افکار کو اسلامی معاشروں میں رائج کرنا اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے ہیں ۔ وہ برابر دو صدیوں سے اس کام میں مصروف ہیں ۔ لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم نے مسلمانوں کے اندر دین بیزاری اور الحاد کے بیج بونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آغاز میں مسلم اہل درد مفکرین و دانشوروں نے خواتین کو مغربی تعلیم کے زہریلے اثرات سے بچانے کی بہت کوشش کی۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بہت درد مندی سے قوم کو انتباہ کیا :
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازَن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
لیکن مسلمان اپنی سیاسی، ایمانی اور اخلاقی کمزوریوں کے باعث اہل مغرب کے سامنے پسپا ہوتے چلے گئے۔ مغربی تعلیم یافتہ مسلمان اسلامی معاشرہ میں اہل مغرب کے لبرل اثرات کو تعلیم نسواں کے پردے میں پھیلانے میں مصروف ہوگئے۔
پاکستان اگرچہ اسلام کے نام پر ہی دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا تھا لیکن عملاً یہاں اسلامی نظامِ حکومت رائج ہونا تو کجا، اسلامی نظام تعلیم بھی پاکستان کی نوزائیدہ اسلامی مملکت میں آج تک رائج نہیں ہوسکا۔ نتیجہ یہ ہے کہ خود ہماری درسگاہیں مغربی تہذیب اور ان کے افکار کو وطن عزیز میں مقبول و معروف بنانے میں مصروف ہیں ۔ تعلیمی ادارے ناچ گانے، رقص اور موسیقی سکھانے کے مرکز بن چکے ہیں ۔ موسیقی کی تعلیم باقاعدہ نصاب کا حصہ قرار دی جارہی ہے۔ مینا بازار، ڈریس شوز اور ورائٹی شوز سونے پر سہاگہ ہیں …بقول ماہر القادری مرحوم
قوم کی وہ بیٹیاں جن کو بننا تھا بتول
مدرسوں میں سیکھتی ہیں ناچ گانوں کے اُصول
ہمارے ذرائع ابلاغ بھی اسی مغربی ماحول کو پاکستان میں متعارف کروانے میں دن رات