کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 133
کو جانتی اور پہچانتی ہے اور وہ اپنی زندگی کے پیش آمدہ مسائل کو خوش اُسلوبی سے نمٹا لیتی ہے۔ یہ علم دین اس کو شائستہ اور مہذب بناتا ہے ۔ وہ اپنے بچوں کی بھی صالح تربیت کرکے صالح معاشرہ تعمیر کرنے کا باعث ثابت ہوتی ہے۔ تعلیم نسواں اور مغربی تعلیم اہل مغرب نے آج سے دو صدیاں قبل تعلیم نسواں کا نعرہ بلند کیا، اس سے پہلے مغربی خاتون حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کررہی تھی۔ سب سے پہلے نپولین نے نعرہ بلند کیا ”مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، میں تم کو ترقی یافتہ قوم دوں گا۔“ اس کے اس نعرہ کو عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں بڑا بنیادی اور انقلابی قرار دیا گیا۔ تعلیم نسواں کے اس نعرہ نے آہستہ آہستہ پیش رفت کی تو وہ ترقی نسواں ، حقوقِ نسواں اور پھر مساواتِ مرد وزن کے مختلف مدارج طے کرتا چلا گیا۔ چونکہ اہل مغرب خود اپنے مذہب سے بیگانہ ہوچکے تھے۔ ان کے معاشرے سیکولر، لبرل اور مادّی ہوتے جارہے تھے۔ اس کے زیر اثر مغربی عورت کو مردوں کی جکڑ بندیوں اور ظلم وجور سے قدرے آزادی نصیب ہوئی۔ اس نے مردوں کی طرح تعلیم حاصل کی۔ مخلوط ماحول میں تعلیم پانے کے بعد مخلوط ماحول میں اپنی زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے ملازمت کرنے لگی۔ بے خدا تعلیم، بے مقصد زندگی، سیکولر ماحول اور اختلاطِ مرد وزن، فحش فلمیں ، گندی تصاویر اور مخرب اخلاق لٹریچر اور عریاں لباس ان سب عوامل نے مل کر عورت کو بالکل گمراہ اور بے راہرو کردیا۔ پھر اس بے راہرو عورت نے مساواتِ مرد وزن کا نعرہ بلند کیا۔ آہستہ آہستہ مردوں کے خلاف محاذ کھولا گیا۔ عورتوں کو شادی، شوہر، بچے اور گھر کے خلاف اُکسایا گیا۔ ہم جنس پرستی عام ہوگئی۔ گھر بے آباد ہوگئے۔ مرد نے عورت کا خرچ اُٹھانے سے انکار کردیا۔ اب مرد صرف اپنے لئے کمائے اورعورت اپنے لئے۔ غرض اس تصورِ تعلیم کے ساتھ مغرب میں جو عورت بگاڑ تحریک شروع ہوئی، اس نے معاشرے کو جڑسے کھوکھلا کردیا۔ فواحش کثرت سے پھوٹ پڑے۔ طلاقوں کی کثرت ہوگئی، جنسی امراض کی زیادتی نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بچے نرسیوں میں پل کرجرائم پیشہ اور وحشی بننے لگے اور اب مغرب کا ماحول مکمل طور پر نسوانیت زدہ ہے۔ ناچنے گانے اور مرد کا دل لبھانے کے لئے ہر جگہ اور ہر پلیٹ فارم پر عورت موجود ہے لیکن اس کا اصل مقام یعنی گھر اُجڑ چکا ہے۔