کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 130
قرآن کریم اور احادیث ِ نبویہ میں علم کی بے مثال فضیلت بیان کی گئی ہے بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں حصولِ علم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿إنَّمَا يَخْشَی اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰوٴُ﴾ (فاطر:۲۸)
”درحقیقت اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں ۔“
آقاے نامدار پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اس کا آغاز بھی لفظ اقرأ(یعنی پڑھو) سے ہوا تھا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ علم والے لوگوں کا مقابلہ علم سے بے بہرہ جاہل لوگ کیسے کرسکتے ہیں ۔ اس لئے اسلام نے حصول علم کی بہت تاکید کی۔ مثلاً قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے :
﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِیْ الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ (الزمر:۹)
”ان سے پوچھو! کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں ۔“
مندرجہ ذیل ارشادِ نبوی حدیث کی متعدد کتب میں موجود ہے :
”عبادت گزار کے مقابلے میں عالم کو وہی فضیلت حاصل ہے جو چودہویں رات کے چاند کو عام تاروں پر ، علما انبیا کے وارث ہیں ، کیونکہ انبیا نے ترکہ میں درہم و دینار نہیں چھوڑے بلکہ علم چھوڑا ہے۔ سو جس نے علم حاصل کرلیا اس نے نبوی ترکہ میں سے وافر حصہ حاصل کرلیا۔“
(صحیح ترمذی للالبانی:۲۱۵۹)
نیز ارشادنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”عبادت گزار کے مقابلے میں عالم کو وہی فضیلت حاصل ہے جو مجھے تم میں سے ادنیٰ ترین شخص کے مقابلے میں حاصل ہے۔“ (ترمذی:۲۶۸۵)
علم کی اہمیت کے بارے میں بطورِ نمونہ چند آیات اور احادیث پیش کی گئی ہیں جن سے علم کی بے پایاں فضیلت ثابت ہورہی ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ علم کے جتنے فضائل بیان ہوئے ہیں ، صرف اسی عالم کے لئے ہیں جو خود اپنے علم کا پابند ہے۔ اس پر مکمل عمل کرتا ہے۔ اس علم کے ذریعے اللہ کی رضا جوئی میں مصروف رہتا ہے۔ اس کے اوامر بجا لاتا ہے اور اس کے نواہی سے دور رہتا ہے کیونکہ علم بغیر عمل کے وبال ہوتا ہے۔
اسلام میں خواتین کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام
قبل از اسلام جاہلی معاشروں میں عورت ہر قسم کے حق سے محروم تھی۔ جہاں عورت زندگی کے حق سے ہی محروم ہو، وہاں اس کے پڑھنے لکھنے کے حق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر اسلام نے جہاں عورت کو اعلیٰ و ارفع مقام دیا وہاں اس پر ایک احسان یہ بھی فرمایا