کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 128
حیثیت کیڑے مکوڑے ان سے کئی گنا بہتر ہیں ، کیونکہ ایسی عورتیں ابلیس کی فرمانبرداری کو اللہ کی اطاعت پر ترجیح دیتی ہیں اور اس راستے کو اختیار کرکے اللہ کے غضب کو دعوت دیتی ہیں جس کی منزل دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔ ان ہی کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا: ”دوزخیوں کی دو قسمیں ہیں جنہیں میں نے نہیں دیکھا۔ ایک وہ لوگ جن کے پاس بیل کی دم کی مانند کوڑے ہیں جن سے وہ لوگوں کومارتے ہیں اور دوسری وہ عورتیں ہیں جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہیں (لباس اتناباریک پہنتی ہیں ) یہ خود بھی لوگوں کی طرف مائل ہوتی ہیں اور انہیں بھی اپنی جانب جھکاتی ہیں ۔ ان کے سربختی اونٹ (ایک قسم) کی کوہان کی مانند ایک طرف جھکے ہوئے ہیں ۔ یہ جنت میں داخل نہ ہوں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکیں گی۔“ (صحیح مسلم، کتاب اللباس)
ان عورتوں کی پہچان یہ ہے کہ ان کے دل ہمیشہ حقیقی راحت و سکون کو ترستے رہتے ہیں ۔ ایسی عورتوں کی ہر مسکراہٹ میں درد و غم کاسمندر موجزن ہے، ان کی ہر مسرت و شادمانی میں حسرت و ندامت کی پرچھائیں ہوتی ہیں ، ان کی ہر حالت میں بے اطمینانی اور کرب کا شائبہ ہوتا ہے اور ان کی ہر آرزو میں فطرت سے بغاوت کی صدا شامل ہوتی ہے!!
دورِ حاضر میں عریانی و فحاشی کے فروغ اور بحیثیت ِمجموعی انسان کے اخلاق و روحانی زوال کے اس الم انگیز اور افسوسناک تجزیے کے بعد سوال یہ ہے کہ پوری دنیا کے انسانوں کو بے راہ روی اور مادر پدر آزادی کے اس تباہ کن بھنور سے کیسے نکالا جائے؟
یہ سوال پوری اُمت ِمسلمہ کے مصلحین کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ جو معاشرہ عریانی و فحاشی کے ذریعے بدکاری کے عذاب میں مبتلا ہوجائے اور جس قوم کے افراد شہوانیت پرستی اور نفسیاتی چاہتوں ہی کو سب کچھ سمجھ لیں ، ان پروقتی دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا اثر انداز ہونا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے کیونکہ نفس کے فتنے کی شدت سے صرف وہی لوگ باخبر ہیں جو اس کا کڑوا مزا چکھ چکے ہوں ۔ یہ سوال اس قدر فکر انگیز ہے کہ انتہائی سوچ بچار کے باوجود ہم اس کا جواب تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔لہٰذا ہم کسی اور صاحب ِغوروتدبر کو دعوت فکر و نظر دیتے ہیں کہ وہ ابلیس کی اس موٴثر، دلکش اور کشش انگیز سازش کا توڑ تلاش کریں جو آج کے انسان کو اس حقیقی انسانیت سے روشناس کراسکے جسے اللہ نے دیگر تمام مخلوق پرفضیلت و بزرگی عطا فرمائی ہے۔