کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 127
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ” مصر میں ایک نوجوان رہتا تھا، وہ مسجد میں اذان دیتا اور نماز پڑھتا تھا۔ اس کے چہرے پر عبادت کا نور عیاں تھا۔ ایک روز وہ حسب ِمعمول مسجد کے مینار پر اذان دینے کے لئے چڑھا تو مسجد کے پڑوس میں ایک خوبصورت عیسائی لڑکی پر اس کی نگاہ پڑگئی۔ مینار سے اتر کر وہ اس کے گھر چلا گیا۔ لڑکی نے پوچھا کہ : تم یہاں کیسے آئے ہو؟ اس نوجوان نے کہاکہ تمہاری محبت مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔ لڑکی نے کہا کہ میں تمہاری آرزو کبھی پوری نہیں کرسکتی۔ لڑکے نے کہا: میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ۔ لڑکی نے کہا: یہ کیسے ہوسکتا ہے، تم مسلمان ہو اور میں عیسائی۔ لڑکے نے کہاکہ میں عیسائیت اختیار کرلیتا ہوں ۔ چنانچہ وہ عیسائی ہوگیا اور ان کے ساتھ رہنے لگا۔ ایک رات وہ سونے کے لئے مکان کی چھت پر گیا، پاوٴں پھسلا تو نیچے آگرا اور مر گیا۔ یوں اس لڑکے نے ایمان سے تو ہاتھ دھویا ہی تھا، اس لڑکی سے نکاح پر بھی قادر نہ ہوسکا۔“ یعنی حال اس شعر کے مصداق ہوگیا
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
جس شخص میں غیرت و حمیت اور عفت و آبرو کی حفاظت کے جراثیم ہی ختم ہوجائیں ، اسے انسان کہلانے کا کوئی حق نہیں ،کیونکہ شرم و حیا ہی انسانیت کا طرہٴ امتیاز ہے اور اسی سے فرد کو اپنی بقا اور سلامتی کا پیغام ملتا ہے۔اسی لئے اسلام نے بھی اپنی تعلیمات میں حیا کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔ چنانچہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”حیا ایمان کا حصہ ہے۔“ ( بخاری)
نیز فرمایا: ”گذشتہ انبیا کے کلام میں سے یہ بھی ہے کہ شرم و حیا رخصت ہوجائے تو پھر جو چاہے کرو۔“ (صحیح بخاری)
خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے۔ “ (صحیح بخاری، کتاب الادب)
جوشخص اپنی بیوی،بہن یا ماں کے اجنبی افراد سے ملنے پر خوشی محسوس کرتا ہے، وہ کتنا بے غیرت ہے، وہ آرزو رکھتا ہے کہ لوگ اس کی گھریلو خواتین کی خوبصورتی کا اعتراف کریں ، حالانکہ ایسی عورتیں جوغیرمردوں کے سامنے اپنا حسن و جمال ظاہر کرتی ہیں ، درحقیقت انسانیت کا بدصورت طبقہ ہیں ۔ زمین پر چلنے والے بے زبان جانور اور رینگنے والے بے