کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 125
میں نکاح کو ایک غیر ضروری چیز تصور کیا جاتا ہے۔ مغربی اقوام مادر پدر آزادی کے زیر سایہ ہمیشہ ایک ہی بدن سے شہوانی تسکین حاصل کرنے کو کوتاہ نظر ی اور قدامت پسندی کا مظہر سمجھتی ہیں ۔ اسی بنا پر مغربی معاشرہ شہوانیت پرستی کے سیلاب میں بہہ کر انسانیت سے اس قدر دور ہوچکا ہے کہ بلا شک و شبہ شرم و حیا اور عفت و آبرو کے لحاظ سے ان میں اور حیوانات میں کچھ واضح فرق باقی نہیں رہا۔ ان کے اخلاقی اور روحانی زوال کی عکاسی یہ رپورٹ کرتی ہے کہ امریکہ میں ہر چھ منٹ کے بعد عصمت دری کا ایک واقعہ پیش آتا ہے اور یورپ کے مہذب ترین ملک سویڈن میں ستر فیصد لڑکیاں شادی سے قبل حاملہ ہوجاتی ہیں ۔ غرضیکہ مغربی ممالک کو بدکاری اور آبروباختگی کا بھیانک عفریت اس سرعت سے ہڑپ کررہا ہے کہ ان کا خاندانی نظام تباہی کے دہانے کو چھو رہا ہے، میاں بیوی کے درمیان پیار ومحبت کے جذبات مفقود ہیں تو جنم لینے والے بچے ماں کی ممتا سے محروم ہیں ۔ لیکن گرل فرینڈ اور بواے فرینڈ کی تلاش میں سرگرداں مغرب ان مہلک اور جان لیوا امراض کی تشخیص کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ’کنویں کے مینڈک‘کی مانند اس کی نگاہ میں زندگی کا مفہوم صرف اور صرف ’عیاشی اور نفس پرستی‘ ہی میں پوشیدہ ہے۔ بے شک جنس ِمخالف کی جانب میلان اور شہوانی جذبات کی تسکین ایک فطری خواہش ہے جس کے جراثیم ہر اچھے اور برے انسان میں پائے جاتے ہیں لیکن اسلام اس کی غیر فطری اور خلافِ انسانیت تسکین سے روکتا ہے، تاکہ معاشرے میں اعتدال اور توازن برقرار رہے اور ایسا نہ ہو کہ انسان ابلیس کی ہر دعوتِ گناہ پر لبیک کہتے ہوئے خود اپنے فطری تقاضوں کو پاوٴں تلے روند ڈالے۔ چونکہ اسلام دین فطرت ہے، اس لئے اس کے تمام احکام پر عمل پیرا ہونا انسانی طبیعت کا ایک اہم جزو ہے۔ چونکہ شہوانی خواہشات کی تکمیل فطرت کا حصہ ہے،اس لئے جب انسان اپنی شہوانی آرزووٴں کو افراط و تفریط کے بجائے اسلام کے بتائے ہوئے جائز طریقوں سے پورا کرتا ہے تو فطرت کی اتباع کرنے کی بنا پر ان کا توازن درست رہتا ہے اور اس تعلق میں خوبصورتی برقرار رہتی ہے لیکن جب انسان فطرت کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی شہوت کی آسودگی کے لئے ممنوع اور ناجائز ذرائع استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتا تواس کے جنسی میلانات رفتہ رفتہ کم ہوتے چلے جاتے ہیں ۔حتیٰ کہ سرشت سے اس بغاوت کے نتیجے میں