کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 122
کے جائز حقوق دلوانے ہی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لیکن اصل حقیقت کیا ہے؟ اس سے عوام الناس کی ایک بڑی تعداد ناواقف ہے…!!
آزادیٴ نسواں کی تحریک مصر میں !
’عورت کی آزادی‘ عہد ِحاضر ہی کا المیہ نہیں بلکہ اس کی پکار اس وقت سے دنیا کے گوشے گوشے میں گونج رہی ہے، جب اس پتھر کے دور کے انسان پر دنیوی ترقی کے در وا ہوئے اور اس نے مادّی ارتقا کے لئے جدت کا لبادہ اوڑھا۔ تجارت و معیشت میں روز افزوں بڑھوتری کے لئے مختلف اقوام نے عورت کو گھر کی محفوظ اور پرسکون چار دیواری سے باہر نکالا لیکن وقتی کامرانی کے باوجود دائمی ناکامی و تنگ دستی اور ذلت و پریشانی نے ان کے قدم چومے۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ علم و ترقی اور تہذیب و تمدن کے گہواروں روم اور یونان نے جب خاتونِ خانہ کو ’زینت ِمجلس‘ بنا دیا تو کاتب ِتقدیر نے اس عظیم اخلاقی اور معاشرتی گناہ کی پاداش میں انہیں صفحہٴ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا۔ دانش مندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ پوری دنیا کے انسان بالعموم اور مسلمان بالخصوص اس سے عبرت پکڑتے لیکن افسوس!یہ بھی لذتِ نفس کی آرزو میں اسی رو میں بہہ گئے جس کی تندی و تیزی نے ان سے پہلے کی قوموں کو نیست و نابود کردیا تھا۔ یوں گمراہیوں کی شب ِتاریک میں جلتے ہوئے واحد چراغِ ہدایت نے بھی تہذیب مغرب کی پیروی میں اپنی روشنی گل کردی اور آج کیفیت یہ ہے کہ تقریباً تمام اسلامی ممالک اس تباہ کن اورہلاکت خیز فتنے کی زد میں آکر ’آزادئ نسواں ‘ کا راگ الاپنے میں مشغول ہوگئے ہیں ۔ اسلامی ممالک میں آزادئ نسواں کی صداے بازگشت سب سے پہلے مصر میں ، پھر ترکی ، ایران اور افغانستان میں شروع ہوئی۔ مصر میں خصوصی طور پر تحریک ِآزادئ نسواں نے خدیو اسماعیل پاشا کے عہد ِحکومت (۱۸۶۳ء تا ۱۸۷۹ء) میں زور پکڑا اور عورتوں کے لئے جدید مغربی طرز کے سکول کھلنے لگے۔ آزادی کی اس تحریک میں جو بعد میں بہت پھیل گئی، مصر کے معروف ادیب اور سماجی مصلح قاسم امین (۱۸۶۳ء تا ۱۹۰۸ء) نے بڑا حصہ لیا۔ قاسم امین نے، جنہیں مُحرِّرالمرأة (عورت کو آزادی دلانے والا) کا خطاب دیا گیا، آزادئ نسواں کی تائیدو حمایت میں دو کتابیں تحریر المرأة (عورت کی آزادی) اور المرأة الجدیدة (جدید عورت) تصنیف کیں ۔