کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 120
شیطان دونوں کو بہکانے لگا تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ، کھول دے اور کہنے لگا کہ تمہیں تمہارے پروردگار نے اس درخت سے صرف اس لئے منع کیا ہے کہ کہیں تم فرشے نہ بن جاوٴ یا ہمیشہ جیتے نہ رہو اور ان سے قسم کھاکر کہنے لگاکہ میں تو تمہارا خیرخواہ ہوں ۔ غرض (مردود نے ) دھوکا دے کر ان کو (گناہ کی طرف) کھینچ ہی لیا۔ جب انہوں نے اس درخت (کے پھل) کو کھا لیا تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں اور وہ جنت کے (درختوں کے) پتے اپنے اوپر چپکانے (اور ستر چھپانے) لگے۔ تب ان کے ربّ نے ان کو پکارا کہ کیا میں نے تمہیں اس درخت (کے پاس جانے) سے منع نہیں کیا تھا اور بتا نہیں دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے۔“ (ترجمہ آیات ، الاعراف:۱۹تا۲۲) انسان پر اللہ کے انعامات حضرت آدم علیہ السلام کے بارگاہِ ایزدی میں توبہ کرنے کے بعد انہیں جنت سے نکال کر زمین میں بسا دیا گیا۔ خلیفہ کی حیثیت سے انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز بخشا اور اسے اپنی دیگر مخلوق پر کئی اعتبار سے فضیلت و بزرگی عطا فرمائی، اسے رہنے سہنے کے ڈھنگ سکھائے اور کھانے پینے کے آداب سے آگاہ کیا لیکن ان سب کے علاوہ ایک نعمت ایسی عطا فرمائی جس نے بنی آدم کی عظمت کو حد ِ کمال تک پہنچا دیا اور وہ انسان کا اپنے بدن کو اچھے انداز سے ڈھانپنا اور اس کی جبلت میں شرم و حیا کاموجود ہونا ہے۔ یہ ایسی عظیم اور لازوال نعمت ہے جو قدرت کی جانب سے صرف اور صرف حیوانِ ناطق یعنی انسان ہی کو ودیعت کی گئی اور دیگر مخلوق کو اس سے محروم رکھا گیا۔ چنانچہ لباس کی نعمت کا اللہ پاک نے بطورِ خاص یوں ذکر فرمایا : ”اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس کی نعمت اُتاری تاکہ تمہارا ستر ڈھانکے اور (تمہارے بدن کو) زینت دے اور پرہیزگاری کا لباس سب سے اچھا ہے۔ یہ خدا کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں ۔“ (ترجمہ آیت ، الاعراف:۲۶) انسانی فطرت میں شرم و حیا کے عناصر کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے مابین ایک دوسرے کے لئے کشش پیدا فرما دی اور اسے اتنی قوت عطاکردی کہ جنس ِمخالف کی چاہت انسان کے دل و دماغ پر حاوی ہوگئی۔ مرد نے عورت کے حسن و جمال پر فریفتہ ہوکر