کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 119
تحریک ِنسواں محمد آصف احسان عبدالباقی آزادئ نسواں یا فحاشی کا فروغ؟ اسلام کے واضح اور پاکیزہ احکام مصائب و آلام سے دوچار انسانیت کے لئے راحت وسکون اور فرحت و انبساط کا باعث ہیں ۔ دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں اور کامیابیاں ان میں پوشیدہ ہیں ۔ اسلام کی یہ عظمت و رِفعت ابلیس اور اس کے پیروکاروں کے دل و دماغ میں نوکدار کانٹوں کی مانند چبھن پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ اس اذیت سے نجات حاصل کرنے اور اپنے اصل مقصدکی بجاآوری کے لئے شیطان کا گروہ ہروقت اس جدوجہد میں مگن ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو، ابن ِآدم کو راہِ راست سے منحرف کرکے اسلام سے بیزار کردیا جائے اور انہیں لذت کے سرور میں مبتلا کرکے اسلام کی تعلیمات اور حق و صداقت کی پہچان سے اس قدر دور کردیا جائے کہ مخلوق اپنے پیدا کرنے والے کو بھول کر اس کی یاد سے غافل ہوجائے۔ پس نیکی اور بدی کے مابین یہ جنگ اُسی روز سے جاری ہے جس دن ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس عدمِ اطاعت پرخالق ِکائنات نے شیطان کے مہلت طلب کرنے پر اسے یومِ آخرت تک مہلت عطا فرمائی تاکہ وہ انسان کو اپنی خوش نما اور دل فریب چالوں کے پھندے میں پھنسا کر سیدھے راستے سے بھٹکا سکے۔ چنانچہ سب سے پہلا اور مہلک ترین داوٴ جو شیطان نے کھیلا، یہ تھا کہ اس نے دھوکا دہی اور کذب بیانی کے ساتھ آدم و حوا علیہما السلام کو اس درخت کے چکھنے پرمجبور کردیا جس کے پاس جانے سے بھی اللہ نے منع فرمایا تھا۔ اس نافرمانی اور معصیت کے نتیجے میں آدم و حوا علیہ السلام کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ فطری شرم و حیا کی بنا پر اپنے برہنہ جسموں کو پتوں سے چھپانے لگے۔ اس واقعے کا قرآن حکیم میں یوں تذکرہ کیا گیا: ”اور ہم نے( آدم علیہ السلام سے) کہا کہ تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو سہو اور جہاں سے چاہو (اور جو چاہو) نوشِ جان کرو مگر اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ گناہ گار ہوجاوٴ گے۔ تو