کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 118
راقم کی نگاہ سے مذکورہ کتاب میں ایلنرروزویلٹ کا یہ اعلانِ برأت گذرا تو اسے سخت حیرت ہوئی۔مگر امریکہ اور یورپ کے سنجیدہ فکر دانشور تحریک ِنازن کو خاندانی اقدار کی تباہی کا ذمہ دار قرا ردے کر سخت تنقیدکا نشانہ بنارہے ہیں ۔ امریکہ میں تحریک ِنسواں کے ارتقا پرنظر رکھنے والے قارئین بخوبی واقف ہیں کہ امریکہ میں ERA(مساوی حقوق کی ترمیم) کی تحریک کو امریکی خواتین نے مسترد کردیا۔ ایلننرروز ویلٹ بھی عورتوں اور مردوں کی مطلق مساوات کی قائل نہ تھی، وہ خاندانی اقدار پر یقین رکھتی تھی۔ اس نے ایک دفعہ کہا :
”عورتیں مردوں سے مختلف ہیں ، ان کے جسمانی فرائض مختلف ہیں ، ہماری نسل کا مستقبل اس بات سے وابستہ ہے کہ عورتیں کس قدر صحت مند بچے پیدا کرتی ہیں ۔“
(A lesser life, by. S.A Hewlet, p.91)
اسی کتاب کے صفحہ نمبر۹۱ کی یہ سطر ملاحظہ کیجئے :
"Mrs. Roosewelt was so issitated by the equal rights emphasis of mainstreem American feminists that she refused to be labelled a feminist beself. (do)
”مسز روزویلٹ امریکی نازن پسندوں کی مساوی حقوق کے بارے میں تکرار پر اس قدر مشتعل ہوئیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو Feminist کہلانے سے انکار کردیا۔“
ایک اسلامی معاشرے میں نازنوں اور مترجلات کی بجائے مستورات اور عفت مآب خواتین کے کردار کو نمونہ (رول ماڈل) بنانے کی ضرورت ہے۔ عورتوں کوحیاو عفت اور ممتا کے کردار سے محروم کردینے والی تحریک کو حقوقِ نسواں کی بجائے ’حقوقِ نازن‘کا نام دینا زیادہ مناسب ہے۔ اسلام نے مرد وزن کی مساوات اور حقوق کا ایک متوازن تصور پیش کیاہے۔ یہی وہ فلسفہ ہے جو جدید دور میں معاشرتی توازن کی بنیاد فراہم کرسکتا ہے۔ کیونکہ مغرب کی تحریک ِنسواں اپنے نتائج کے اعتبار سے معاشرتی عدمِ توازن کا باعث بنی ہے !!