کتاب: محدث شمارہ 284 - صفحہ 116
ناپسندیدہ درجات ہیں ۔ اسلام حسن و اعتدال اور توازن فکر کو پسند کرتا ہے۔ جبکہ ان دونوں اصطلاحات میں عدمِ توازن پایا جاتاہے۔ اُردو شاعری کے مطالبے سے ظاہرہوتا ہے کہ اس دور کی عورتیں بھی اپنے آپ کو ’نازنین‘ کہلوانا پسند نہیں کرتی تھیں ۔ شاعر حضرات اپنی ہوس ناکی کے اظہار اور محض چھیڑ خوانی کے لئے نازنین کی ترکیب استعمال کرتے تھے۔ نواب سعادت یار خان رنگین کا ایک شعر اس ناپسندیدگی کو ظاہر کرتا ہے گر نازنین کہے سے بُرا مانتے ہیں آپ مجھے نازنین کہو میں نازنین سی تحریک ِنازن نے مشرقی ادب میں ’نازنین ‘کے کردار کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ’نازن‘ کسی بھی صورت میں ’نازنین‘ بننے کو تیارنہیں ہیں ۔ اب ہمارے شعرا کو ماہ جبینوں ، نازنینوں وغیرہ جیسی تراکیب کے استعمال میں بھی محتاط رہنا پڑے گا۔ ورنہ وہ نازنین تلاش کرتے کرتے کسی ’نازن‘ کے عتاب کا موجب بن سکتے ہیں !! اہل مغرب کا مخمصہ ٭ ’عورت‘ اور ’نازن‘ کا فرق صرف ہمارے پیش نظر ہی نہیں ہے۔ مغرب کے بعض دانشور بھی اس کااعتبار ضرور کرتے ہیں ۔ مغرب میں تحریک ِآزادیٴ نسواں کے حامیوں کو "Feminists" کہا جاتاہے۔ وہ دانشور جو عام عورتوں کے مخالف تو نہیں مگر تحریک ِنازن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ، اپنے لئے "Womanist" کی اصطلاح پسند کرتے ہیں ۔ گویا ’عورت پسندی‘ (Womanism) اور نازن پسندی (Feminism) دو مختلف مکاتیب ِفکر ہیں ۔ Neil Lyndon کا نام تحریک ِنازن کے معروف ناقدین میں ہوتاہے۔ انہوں نے "The failure of feminism" اور "No more sex war" جیسی فکر انگیز کتابیں لکھی ہیں ۔ تحریک ِنازن کے علمبردار انہیں Anti۔Woman یعنی عورت مخالف ہونے کا طعنہ دیتے ہیں ۔اس الزام کی تردید کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں : "It is perfectly illotical to say that somebody who espouses anti۔feminist beliefs must be anti۔woman. It